021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع قبل القبض میں مبیع اور ثمن کی ہلاکت کے بعد تدارک کی صورت
56401خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: میں نے ایک فتوی ،جس کا نمبر56118/56ہے، میں موٹرسائیکلوں کےقسطوں کے کاروبار سے متعلق کچھ سوالات کیے تھے۔اب اس سے متعلق یہ بات معلوم کرنی ہےکہ ہم نےکچھ معاملات ایسے کیے ہیں جہاں پر ہم نے چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی دوسرے آدمی کو بیچ دی تھی۔ اب ان معاملات کا کیا حکم ہےجو ہم نے کیے ہیں؟ ہم ان کا تدارک کس طرح کر سکتے ہیں؟ جبکہ مبیع اور ثمن دونوں اب نہیں رہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیع قبل القبض درحقیقت بیع فاسد کی ایک صورت ہےجو کہ شرعا ممنوع اور ناجائز ہے۔بیع فاسد کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں پر لازم اور واجب ہے کہ اس بیع کو ختم کریں،کیونکہ انہوں نے ایک غیر شرعی فعل کا ارتکاب کیا ہے۔البتہ بیع ختم کرنےکی آگے بہت سی صورتیں ہیں،مثلا: اگر ثمن اور مبیع باقی ہیں ،تو بیع ختم کرنے کی صورت یہ ہےکہ خریدار مبیع واپس کرے اور بیچنے والے نے جو پیسے لیے ہیں وہ خریدار کو لوٹائے۔البتہ اگر ثمن اور مبیع باقی نہ رہیں،مثلا وہ چیز استعمال ہوکرختم ہوجائےیا اس کے ساتھ کسی غیر کا حق متعلق ہوجائے،مثلا: خریدار اس کو آگے بیچ دے،ہدیہ کردےوغیرہ، تو ان صورتوں میں چونکہ اس چیز کو تو لوٹایا نہیں جاسکتا،لہذا یہاں بیع ختم کرنے کاطریقہ یہ ہےکہ اگر اس چیز کا مثل موجود(یعنی اس جیسی چیز بازار سے مل جاتی ) ہےتو،خریدار مثل ادا کرےاوراگر مثل موجود نہیں تو اس کی بازاری قیمت کے بقدر پیسے فروخت کنندہ کو ادا کرےاورثمن یعنی جو پیسے بیع کےوقت اس کو دیئے تھے وہ واپس لے ۔ اب اس حکم کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہےکہ اب چونکہ مبیع اور ثمن باقی نہیں ہیں یعنی اسی چیز کی واپسی ممکن نہیں،لہذا اب خریدار پر لازم ہےکہ وہ اسی طرح کا موٹر سائیکل خریدار کر فروخت کنندہ کو واپس دے(اگر ممکن ہو ،کیونکہ موٹرسائیکل کا ہر سال نیا ماڈل آجاتا ہے)اور فروخت کنندہ نے جو پہلے پیسے لیےتھے وہ اس کو واپس کرے۔اور اگر اسی طرح کا موٹرسائیکل ملنا مشکل ہوتو جس دن موٹر سائیکل کا یہ ماڈل مارکیٹ میں آنابند ہوا ہے،اس آخری دن موٹرسائیکل کی جو قیمت تھی اتنے پیسے وہ فروخت کرنےوالے کو ادا کرے اور بیع کے وقت جو پیسے دیے تھے اس سے واپس لے۔ یہاں ایک بات اور ذہن میں رکھنی چاہیےکہ اگرخریدار نےآگے موٹر سائیکل بیچ کر نفع کمایا ہے ،تووہ نفع اس کے لیے جائز نہیں بلکہ نفع کی رقم کو بغیرثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہےاورفروخت کرنے والے نے جو پیسے لیے تھے ،ان پر اگر نفع کمایا ہے تو وہ اس کے لیے جائز ہے۔لیکن اگر فروخت کرنے والے نے پیسوں کی بجائے کوئی اور متعین چیز لی تھی، مثلا: موٹر سائیکل کے بدلے موٹر سائیکل یا کوئی اور متعین سامان تھا تو اس صورت میں فروخت کرنے والے نے بھی وہ چیز بیچ کرجو نفع کمایا ہے اسے بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات
قال في الدر المختار: "(و) يجب (على كل واحد منهما فسخه قبل القبض) ويكون امتناعا عنه.ابن ملك (أو بعده ما دام) المبيع بحاله.جوهرة (في يد المشتري إعداما للفساد) لانه معصية فيجب رفعها. (ج:5,ص:91, دار الفكر-بيروت) وفی الشامیۃ: "وقال في الفتح: فإذا أعتقه أو باعه أو وهبه وسلمه فهو جائز وعليه القيمة لما ذكرنا من أنه ملكه بالقبض فتنفذ تصرفاته فيه، وإنما وجبت القيمة؛ لأنه انقطع حق الاسترداد لتعلق حق العبد به، والاسترداد حق الشرع وحق العبد مقدم لفقره فقد فوت المكنة بتأخير التوبة. اهـ. ملخصا: أي أن الواجب عليه كان هو التوبة بالفسخ والاسترداد وبتأخيره إلى وجود هذه التصرفات التي تعلق بها حق عبد يكون قد فوت مكنته من الاسترداد فتعين لزوم القيمة، ومقتضاه أن المعصية تقررت عليه فلا يخرج عن عهدتها إلا بالتوبة وإن الفسخ قبل هذه التصرفات توبة كما يشير إليه قوله الشارح رفعا للمعصية. . ." (ج:5,ص:93, دار الفكر-بيروت) وفیہ ایضا: "(قول المصنف وطاب للبائع ما ربح لا للمشتري) صورة المسألة ما ذكره محمد في الجامع الصغير: اشترى من رجل جارية بيعا فاسدا بألف درهم وتقابضا وربح كل منهما فيما قبض يتصدق الذي قبض الجارية بالربح ويطيب الربح للذي قبض الدراهم اهـ......وإنما لم يتعين النقد؛ لأن ثمن المبيع يثبت في الذمة، بخلاف نفس المبيع؛ لأن العقد يتعلق بعينه، ومفاد هذا الفرق أنه لو كان بيع مقابضة لا يطيب الربح لهما؛.... " (ج:5,ص:96,97, دار الفكر-بيروت) وفي البناية: "وفي شرح الطحاوي:وإذا باعه المشتري ليس للبائع إبطاله، وعلى المشتري القيمة أو المثل، إن كان مثليا ويطيب ذلك الملك للثاني لأنه ملكه بعقد صحيح بخلاف المشتري الأول لأنه لا يحل له ولا يطيب لأنه ملكه بعقد فاسد. . . ." (ج:8,ص:203, دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان) وفی تبيين الحقائق : "(إلا أن يبيع المشتري أو يهب أو يحرر أو يبني) أي إذا تصرف فيه هذه التصرفات ليس لواحد منهما أن يفسخ لأن المشتري ملك المبيع بالقبض فينفذ فيه تصرفاته كلها وينقطع به حق البائع في الاسترداد سواء كان تصرفا يقبل الفسخ أو لا يقبله إلا الإجارة والنكاح" (ج:4,ص:64, المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) وفی بدائع الصنائع : "لأن القبض في البيع الفاسد كقبض الغصب ألا ترى أن كل واحد منهما مضمون الرد حال قيامه، ومضمون القيمة أو المثل حال هلاكه" (ج:5,ص:303, دار الكتب العلمية) وفی الشامیۃ: "(قوله ورجحا) أي قول أبي يوسف وقول محمد وكان الأولى أن يقول أيضا أي كما رجح قول الإمام ضمنا لمشي المتون عليه وصريحا. قال القهستاني: وهو الأصح كما في الخزانة وهو الصحيح كما في التحفة، وعند أبي يوسف يوم الغصب، وهو أعدل الأقوال كما قال المصنف وهو المختار على ما قال صاحب النهاية، وعند محمد يوم الانقطاع وعليه الفتوى كما في ذخيرة الفتاوى، وبه أفتى كثير من المشايخ" (ج:6,ص:183, دارالفکر-بیروت)

سمیع اللہ عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/02/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے