021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ساری جائیداد مسجد کو دے دینا
56255وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

سوال:میرےوالد صاحب کی عمر تقریباً ۹۰ سال ہے ، بوڑھاپے کی وجہ سے وہ ڈپریشن کے شکار ہیں، والد صاحب کی تمام اولاد یعنی بیٹے او ربیٹیوں میں میں سب سے زیادہ غریب ہوں، والد صاحب کی ایک چائے کی دکان ہے، تمام وارثین میں کچھ والد صاحب کی جائداد میں حصہ چاہتے ہیں اور کچھ نہیں چاہتے ۔ والد صاحب کے پاس ایک سو گز کا ایک پلاٹ ہے جس کی قیمت تقریبا ً دو کروڑ روپے ہے ، انہوں نے پورے پلاٹ کو اپنی کسی اولاد سے پوچھے بغیر مسجد کے نام کردیا ہے ، اور خود اپنے اخراجات کے لیے مسجد کے ممبران سے پچاس لاکھ روپے لیے ہیں۔ انہوں اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کو ایک بھی روپیہ نہیں دیا ہے۔ براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کی روشنی میں یہ درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں ڈپریشن کی بنیاد پر آپ کے والد صاحب کو مرض الموت میں شمار نہیں کیا جا سکتا،اور چونکہ انہوں نے اپنی جائیداد اپنے ورثاء میں سے کسی کو نہیں دی اس لئے یہ اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے کسی ایک وارث کو نوازنا چاہتے ہیں اور باقی کو محروم کرنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اگر کوئی شخص مرض الموت میں اپنا مال اپنے کسی وارث کو مفت یا کم قیمت پر دے تو اس کا یہ فعل باقی ورثاء کی رضامندی کے بغیر کالعدم شمار ہوتا ہے،جبکہ مذکورہ صورت میں دونوں شرائط ﴿مرض الموت اور وارث کو عطیہ﴾نہیں پائی جاتی ہیں۔ لہذاآپ کےوالد صاحب اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد کے مالک ومختار ہیں، اور مذکورہ صورت میں انہوں نے مسجد کو چندہ نہیں دیا بلکہ کم قیمت پر زمین فروخت کی ہے،چونکہ اصولاًآپ کے والد اپنا مال و جائیداد کسی بھی طرح استعمال کر سکتے ہیں،لہذا فروخت کا یہ معاملہ منعقد ہوگا اور کسی وارث کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا۔ تاہم اولاد کے ضرورت مند ہوتے ہوئے ایسا معاملہ کرنا،جس کی بنیاد پر اولاد تنگدستی میں مبتلا رہے قابلِ تقلید و تعریف نہیں ہے۔کیونکہ اگر اولاد یا قریبی رشتہ دار تنگ دست ہوں تو شریعت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال دینے سے زیادہ ضروری یہ ہوگا کہ اپنی اولاد کومال دیا جائے اور انھیں اس قابل بنایا جائے کہ باپ کے مرنے کے بعد وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں، لہذا اولاد کے ضرورت مند ہوتے ہوئے مسجد کو دینا کوئی اجر وثواب کا کام نہیں،لہذا بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ اپنی اولاد کو مال دے کر ان کی غربت اور تنگدستی کو ختم کرتے تاہم ایسا نہ کر کے انہوں نے قابلِ مذمت کام کیا ہے،لیکن اب اولاد کو اعتراض کا حق بہرحال نہیں ہے۔

حوالہ جات
قال رسول اللہ ﷺ: "إن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس" ۔(الموطأ - رواية محمد بن الحسن - ج 3 / ص 119) قال فی الفتاوىالهندية: "إقرارالمريضبالدينللأجنبيبجميعالمالجائزإذالميكنعليهدينالصحةكذافيالمحيط"۔(ج 31 / ص 41)

عثمان اکبر

دارالفتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/02/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عثمان اکبر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے