021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مساجد میں بلااجازت وعظ وتذکیر،تعلیم وتدریس کا حکم
71125جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

۱۔کیا امام وقف شدہ مسجد میں کسی دوسرے غیر متنازعہ عالم کو درس یا ترجمہ قرآن سے روک سکتا ہے؟ حالانکہ محلے والوں کو اس عالم پر  اعتراض نہ ہو، بلکہ چاہتے ہوں کہ یہ عالم ہمیں درس / ترجمہ قرآن دیں۔

۲۔کیا امام وقف شدہ مسجد میں کسی دوسرے غیر متنازعہ مدرس / قاری کو ناظرہ پڑھانے سے روک سکتا ہے ؟ حالانکہ محلے والوں کو اسی مدرس پر اعتراض نہ ہو بلکہ چاہتے ہوں کہ یہ ہمارے بچوں کو ناظرہ قرآن مجید پڑھادیں۔

۳۔کیا وقف شدہ  مسجد میں بچوں کے ناظرہ ختم القرآن کے پروگرام ،تبلیغی بیان، گشت، فضائل اعمال کی تعلیم یا دیگر ثواب کا کام جو بدعت نہ ہو روک سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تا۳۔شرعا اگرچہ ہر مسلمان عبادت کی نیت سےمسجد میں نماز ذکر وتلاوت اور وعظ وتذکیر کرسکتا ہے، لیکن جہاں مسجد میں امام اہل محلہ کی انتظامی کمیٹی کی طرف سے یا اپنے ذاتی حیثیت سے متعین ومقرر ہو وہاں مسجد کے  اندر اوقات  نماز میں باجماعت نماز کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی وتدریسی امور میں بھی امام یا انتظامی کمیٹی کی اجازت ضروری ہے،نیزجب اصل مقصد تعلیم دین یا درس قرآن ہی ہے تو اس بارے میں خود امام ہی اس کا زیادہ حقدار ہے،بشرطیکہ وہ  اس کا اہل بھی ہو ، اہل محلہ کو اسی سے اس ضرورت کو پورا کرنے کی درخواست کرنی چاہئے،امام کے علاوہ کسی دوسرے عالم پر اصرار کرنا  درست نہیں،البتہ جہاں امام یا کمیٹی اس کی اجازت نہ دیں اور وعظ/درس یا  تعلیم ضروری ہواورخود امام میں اہلیت نہ ہو یا وہ اس پر آمادہ نہ ہو تو ایسی صورت میں خارج از مسجد بندوبست کرلینا چاہئے،اس لیے کہ مساجد کا قیام بنیادی طور پر صرف باجماعت نمازوں کی ادائیگی کے لیے ہوا ہے،لہذا نماز باجماعت کے علاوہ سؤال میں مذکوردوسرے کام اگر ضمنا وتبعا اور اس طور پر ہوں کہ اصل مقصد میں خلل  وحرج نہ ہو تو اس کی اجازت ہے ورنہ دیگر امور کومستقل طور پر(اصلا اور مقصود بناکر)مساجد میں سر انجام دینا درست نہیں، بالخصوص جبکہ ان سے اصل مقصد میں خلل وحرج یا مسجد کے احترام وتقدس میں کمی بھی آتی ہو، نیز فی زمانہ طبائع میں فساد غالب ہے ،لہذا عموما عام اجازت دینے سے مساجد میں فتنہ وفساد پیدا ہونے کا شدید خدشہ بھی ہے،جس کے شواہد واقعات کی صورت میں محتاج بیان نہیں،لہذا اس قسم کے عوارض کی وجہ سے بلااجازت کسی بھی قسم کی درس وتدریس یا تعلیم وغیرہ پر پابندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ،بلکہ نظم وضبط کو درست رکھنے کے لیے یہ  کسی قدرلازم بھی ہے۔البتہ فضائل اعمال اور دیگرتبلیغی اعمال سے چونکہ مشاہدہ سے ثابت ہے کہ کسی قسم کا کوئی فتنہ نہیں ہوتا ،بلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے، لہذا بلا کسی معقول سبب اور وجہ کے اس سے منع کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب