021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام کے لیے مسجد کی اشیاء کاذاتی استعمال
71120وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا امام وقف شدہ مسجد کی کوئی چیز مثلا جنریٹر، پنکھے ،پلاسٹک پائپ، بجلی، پانی  اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

امام چونکہ مصالح مسجد میں سے ہے،اور اس کا گھر متعلقات مسجد میں سے ہے، لہذامسجد کاپانی یامسجد کی لائن کی بجلی اور جنریٹرکی بجلی امام کے گھر منتقل کرنا جائز ہے،اگرچہ نماز کا وقت نہ ہو،بشرطیکہ انتظامیہ کی طرف سے اس کی ممانعت نہ ہو۔(ازاحسن الفتاوی:ج۶،ص۴۴۶)

خاص مسجد کے لیے وقف اشیاء یا مسجد کے عمومی چندے سے  مسجد کے لیےخریدی گئی اشیاءکا ذاتی استعمال کسی بھی صورت( خواہ بلااجرت وقیمت ہویاکہ اجرت وقیمت پر ) کسی کے لیے بھی( خواہ چندہ دینے والا ہو یا کوئی اورمنتظم وغیرہ) جائز نہیں،بلکہ اس طرح ناجائز(ذاتی) استعمال کی صورت میں توبہ واستغفارکے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ  جو چیز بھی اس طرح استعمال کی ہے،عرف کے مطابق اس کے کرایہ  یا قیمت کے بقدر رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کردے اور آئندہ کے لیے اس فعل سے احتراز کرے۔البتہ اگرواقف نے وقف کرتے وقت بوقت ضرورت امام مؤذن یا انتظامیہ کے اراکین کے لیے خصوصی اجازت بطور استثناءصراحۃ ذکر کی ہویاعمومی چندے سے خریدتے وقت مسجدانتظامیہ نے مسجد کے متعلقین اور منتظمین کی استعمال کی نیت بھی کی ہو اور چندہ دینے والوں کی طرف سے کم ازکم دلالۃ اس کی اجازت بھی ہو یعنی اگر انہیں یہ معلوم ہوجائے تو وہ برا نہ منائیں تو پھرصرف ان افراد کے لیے بھی استعمال کی گنجائش ہے،اور اگر یہ چیزیں خاص مسجد کے لیے وقف نہ ہوں بلکہ رفاہ عام کے لیے وقف ہوں یا رفاہ عام کے استعمال کے لیے ہی انہیں اس غرض سے متعلق خصوصی چندہ سے خریدا گیا ہو تو ایسی صورت میں اگرچہ ان چیزوں کا استعمال مسجد کے علاوہ دیگر لوگ بھی کرسکتے ہیں ،لیکن ایسی چیزوں کو مسجد میں رکھنا جائز نہیں، اس لیے کہ مسجد کوئی رفاہی یا خیراتی ادارہ نہیں ،بلکہ عبادت کے لیے مختص اور وقف جگہ ہے جس میں اس قسم کی چیزوں کو رکھنا جائز نہیں، البتہ مسجد کے قرب یا احاطہ میں مسجد بنانے سے پہلے ہی کسی جگہ کو اس  کام کے لیے مختص کردیا جائے تو پھر ایسی چیزوں کو مسجد کے احاطہ میں متعلقہ جگہ میں رکھنا بھی درست ہوگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (2/ 461)
مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى من مصلحةالمسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري ما ذكرنا وإن لم يعرف شرط الواقف في ذلك ينظر هذا القيم إلى من كان قبله، فإن كانوا يشترون من أوقاف المسجد الدهن والحصير والحشيش والآجر وما ذكرنا كان للقيم أن يفعل وإلا فلا، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية (2/ 462)
متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلى بيته وله أن يحمله من البيت إلى المسجد، كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوى الهندية (2/ 462):
وإذا أراد أن يصرف شيئا من ذلك إلى إمام المسجد أو إلى مؤذن المسجد فليس له ذلك، إلا إن كان الواقف شرط ذلك في الوقف، كذا في الذخيرة.ولو شرط الواقف في الوقف الصرف إلى إمام المسجد وبين قدره يصرف إليه إن كان فقيرا وإن كان غنيا لا يحل وكذا الوقف على الفقهاء المؤذنين، كذا في الخلاصة.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب