021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گالی دینا اوراللہ رسول کی طرف گالی کی نسبت کرنا
62149-1جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک عالمِ دین ہے اوراس کا تکیہ کلام ہے گالیاں دینا ہے، اپنی گفتگو میں وہ زیادہ تر گالیوں کا استعمال کرتاہے ،جب اسے منع کیا جاتاہے کہ گالیاں مت دو ، یہ فسق ہے تو وہ جواب میں کہتاہے کہ" گالیاں دینا غلط نہیں ہے ،کیونکہ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں گالیاں دی ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گالیاں دی ہیں اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گالیاں دی ہیں" کیا گالیوں کی اضافت اللہ تعالی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس اورصحابہ کی طرف کرنا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو زید کے متعلق کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کی نظر میں گالی دیناحرام اور کبیرہ گناہ ہے( الامن ظلم بمثل ماعوقب)لہذا اس کو غلط نہ سمجھنا غلط ہے،اللہ اوررسول کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرناجو قرآن وحدیث سے ثابت نہیں بالخصوص نقص والی بات منسوب کرنابالکل جائزنہیں ہے،لہذا شخص مذکور پر گالی دینے اور اللہ رسول کی طرف اس کی نسبت کرنےسے فوراً توبہ واستغفارکرنا اورآئندہ اس سے مکمل اجتناب کرنالازم ہے،قرآن کریم میں ضرب المثل اورکفار کی صفات بیان کرنے کا ذکرتو ملتاہے جیسے (مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا) (الجمعة:5) لیکن قرآن پاک گالیوں اورخلافِ حقیقت بے ہودہ باتوں سے منزہ اورپاک ہے،بعض لوگوں کو" عتل بعد ذلک زنیم" جیسی آیات سے شبہ ہوا ہے، مگر یہ درست نہیں، اس لیے کہ تمام معتبر تراجم میں اس کا جو ترجمہ کیا گیا ہے اس میں گالی کا پہلو نہیں ہے جیسے کہ بدنام، شرکے ساتھ معروف وغیرہ(معارف القران،تفسیر المراعی) یہ تو ایک شخص میں موجود ایک وصف اور حقیقت کا بیان ہے، نیز اس میں کسی کا نام بھی نہیں لیا گیا ہے، بلکہ عام وصف ذکر کرکے مسلمانوں کو اس جیسے وصف اپنانے نے منع کیا گیاہے، اوراس کو عرف میں گالی دینا نہیں کہا جاتا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارےمیں بڑٰی وضاحت کے ساتھ احادیث میں آتاہے کہ" لم يكن النبي سبابا، ولا فحاشا، ولا لعانا" (تاريخ المدينة لابن شبة (2/ 636 ) نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گالی دینے والے تھے نہ فحش گفتگوکرنے والے تھے اورنہ ہی لعن طعن کرنے والےتھے،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عام عادت گالی دینےکی بالکل نہیں تھی ،وہ بڑے عمدہ اخلاق والے انسان تھے،ایک حدیث میں ہے کہ ایک مجلس ایک شخص نے آپ کو گالیاں دی، (آپ خاموش رہے)اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تعجب فرمارہے تھے اورمسکرارہے تھے پھرجب اس شخص نے زیادہ گالیاں دی توحضرت ابوبکرضی نے جواب دیاجس پر نبی کریم صلی اللہ غصے ہوگئے اوروہاں سے چلے گئے، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ان کے پیچھے چلے گئے اورکہاکہ یا رسول اللہ جب وہ مجھے گالیاں دے رہاتھا تو آپ تشریف فرماتھے جب میں نے جواب دیا تو آپ غصے ہوگئے اورچلے گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا جب آپ نے جواب دیا تو شیطان درمیان میں آگیا ،اورمیں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا (اس لیے اٹھ کر آگیا)ایک اورموقع پر ایک غلام کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی بات پرلعن طعن کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "يا أبا بكر، اللعانين والصديقين؟ كلا ورب الكعبة» ، مرتين أو ثلاثا"یعنی لعنت کرنے والے اورصدیقین کبھی جمع ہوسکتے ہیں ؟رب کعبہ کی قسم جمع نہیں ہوسکتے یعنی آپ صدیق ہوکرلعن طعن کررہےہو؟حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اس غلام کوکفارے کے طورآزاد فرمایا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہاکہ "لا أعود"میں اس طرح دوبارہ نہیں کروں گا۔ اسی طرح عروہ ابن مسعود(جو اہل مکہ کا نمائندہ بن کرآیا تھا)ایک موقع پر ایک سخت کلمہ کہا لیکن وہ انتقاماًتھا اورجواباًاورمظلوم کوانتقام لینے کی شرعاً اجازت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی عام عادت قطعاً گالیاں دینے کی نہیں تھی اورجن دو تین مواقع پر ایسی نوبت آئی تھی اور کچھ سخت کلمات آپ کے منہ سے نکلےتھے تو وہ بھی یاتومحض جواباً تھے یا غصہ کی وجہ تھے، مگر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو موقعوں پر اس پرسخت ناگواری کا اظہارفرمایاتھا،اوران کو منع کیاتھا،کیونکہ یہ صدیق اکبررضی اللہ کے شایانِ شان نہیں تھے گو ظلم کا انتقام ہونے کی وجہ سے جائزتھے۔لہذا گالیاں دینا اوردلیل کے طورکہ کہنا کہ(العیاذ باللہ) قرآن میں گالیاں ہیں نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم (العیاذباللہ )گالیاں دیتے تھے یا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ گالیاں دیتے تھے بالکل غلط بات ہے ،ایسے شخص پر لازم ہے اپنے دونوں گناہوں (گالیاں دینےاورمقدس شخصیات کی طرف گالیوں کی نسبت کرنے)سے صدقِ دل سے توبہ کرے اورآئندہ اس قسم کی باتوں سے مکمل اجتناب کرے۔
حوالہ جات
مسند أحمد مخرجا (11/ 64) حدثني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله لا يحب الفحش أو يبغض الفاحش والمتفحش» قال محمد رشيد رضا في تفسير المنار (1354هـ) ) الذَّمُّ: الْوَصْفُ بِالْقَبِيحِ، وَالسَّبُّ وَالشَّتْمُ: مَا يُقْصَدُ بِهِ التَّعْيِيرُ وَالتَّشَفِّي مِنَ الذَّمِّ، سَوَاءٌ كان مَعْنَاهُ صَحِيحًا وَاقِعًا أَوْ إِفْكًا مُفْتَرًى. وَالْقُرْآنُ مُنَزَّهٌ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾”(37) وفی تفسیر المراعی (10/168) (زنیم)ای معروف بالشروالآثام ،کما تعرف الشاۃ بالزنمۃ ،وری عن ابن عباس انہ قال :ھو الرجل یمرعلی القوم فیقولون رجل سوء. تاريخ المدينة لابن شبة (2/ 636) عن أنس رضي الله عنه قال: " لم يكن النبي سبابا، ولا فحاشا، ولا لعانا، كان يقول لأحدنا عند المعتبة: ما له ترب جبينه " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا شَتَمَ أَبَا بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْجَبُ وَيَتَبَسَّمُ ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَدَّ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ ، فَلَحِقَهُ أَبُو بَكْرٍ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ كَانَ يَشْتُمُنِي وَأَنْتَ جَالِسٌ ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، غَضِبْتَ وَقُمْتَ ، قَالَ: " إِنَّهُ كَانَ مَعَكَ مَلَكٌ يَرُدُّ عَنْكَ ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، وَقَعَ الشَّيْطَانُ ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَقْعُدَ مَعَ الشَّيْطَانِ " . ثُمَّ قَالَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثٌ كُلُّهُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلَمَةٍ فَيُغْضِي عَنْهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، إِلَّا أَعَزَّ اللهُ بِهَا نَصْرَهُ ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِيَّةٍ ، يُرِيدُ بِهَا صِلَةً ، إِلَّا زَادَهُ اللهُ بِهَا كَثْرَةً ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ ، يُرِيدُ بِهَا كَثْرَةً ، إِلَّا زَادَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا قِلَّةً " . أخرجه أحمد في "مسنده" (9624) ، وأبو داود في "سننه" (4879) ، والبزار في "مسنده" (8495) ، والبغوي في "شرح السنة" (3586) ، والبيهقي في "السنن الكبرى" (10/236) ، والقضاعي في "مسند الشهاب" (820) ، جميعا من طريق محمد بن عجلان عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة رضي الله عنه به . معنى الحديث ، على تقدير صحته ، وهو ما سأل عنه الأخ الكريم ، فجوابه ما يلي : كان النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس ومعه أبو بكر الصديق رضي الله عنه ، فسب رجلٌ أبا بكر رضي الله عنه مرتين ، كما في رواية أبي داود (4896) ، وفي كل مرة يصمت أبو بكر ولا يرد عليه ، والنبي صلى الله عليه وسلم يتعجب ويبتسم ، ثم سبه الرجل مرة ثالثة ، وحينئذ ردّ عليه أبو بكر وانتصر ، فقام النبي صلى الله عليه وسلم من المجلس ، فتبعه أبو بكر ، وسأله عن سبب غضبه وذهابه من المجلس ، فأخبره أنه ما من مرة سبَّه فيها الرجل وسكت ، إلا ردّ عليه مَلَك ، فلما انتصر أبو بكر ، وردّ بنفسه ، ذهب الملك وحضر الشيطان ، وما كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحضر مجلسا فيه الشيطان .وردُّ أبي بكر على الرجل ليس حراماً ، بل هو أخذ بالرخصة في الانتصار لمن ظُلم ، قال ابن رسلان في "شرح سنن أبي داود" (18/639) :"فانتصر منه أبو بكر بعد ظلمه له ثلاث مرات ، وأخذ بحقه ، وجاوبه بمثل ما قال ، ولم يجاوز مثل ما قال له ، فالمنتصر مطيع لله بما أباحه له ، وقد ذكر الله حد الانتصار فقال :" وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا " الشورى/40 ..... ثم قال :" وأما هذا الحديث فمن وقع في عرضه إنسان فله حالتان : حالة جواز وإباحة ، وهو الانتصار ممن وقع فيه دون عدوان ، وحالة فضيلة وحصول ثواب على صبره ، فأبو بكر استعمل فضيلة الجواز بعد ثالثة ، فانتصر ، والنبي صلى الله عليه وسلم أراد له حالة الفضيلة وحصول الثواب ". اهـ وقال القاري في "مرقاة المفاتيح"(8/3185) في سبب ردّ أبي بكر على الرجل :" عَمَلًا بِالرُّخْصَةِ الْمُجَوِّزَةِ لِلْعَوَامِّ ، وَتَرْكًا لِلْعَزِيمَةِ الْمُنَاسِبَةِ لِمَرْتَبَةِ الْخَوَاصِ ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ} [الشورى: 39] ، {وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ} [الشورى: 40] وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ} [النحل: 126]". اهـ وأما قيام النبي صلى الله عليه وسلم من المجلس ، فلأمرين :الأول : أنه أراد من أبي بكر رضي الله عنه أن يأخذ بالكمال المناسب لمنزلته وفضله ، قال القاري في "مرقاة المفاتيح"(8/3185) :" وَهُوَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَإِنْ كَانَ جَمَعَ بَيْنَ الِانْتِقَامِ عَنْ بَعْضِ حَقِّهِ ، وَبَيْنَ الصَّبْرِ عَنْ بَعْضِهِ، لَكِنَّ لَمَّا كَانَ الْمَطْلُوبُ مِنْهُ الْكَمَالَ الْمُنَاسِبَ لِمَرْتَبَتِهِ مِنَ الصِّدِّيقِيَّةِ ؛ مَا اسْتَحْسَنَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ: (فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ". اهـ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب