021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مملوک چیز کی بیع کا حکم
56972خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

ایک مسئلہ کا شرعی حکم مطلوب ہے۔میرے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا کہ آپ کے کزن کے پاس جو موبائل ہے اس کا سودا 12 ہزار میں میں کرچکا ہوں ( حقیقت میں بھی وہ میرے کزن سے 12 ہزار میں سودا کرچکا تھا ) آپ اس سے اس کا موبائل 12 ہزار میں لے کر مجھے دے دیں ۔ میں اپنے کزن کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ تم اپنا موبائل مجھے دس ہزار میں دو گے ؟ اس نے کہا لے لو ۔ میں نے دس ہزار میں اپنے کزن سے لے کر 12 ہزار میں اس شخص کو دے دیا ، کیا میرے لیے اس طرح کرنا جائز ہے اور یہ منافع 2 ہزار روپے میرے لیے حلال ہو گا؟ اگر حلال نہیں ہوگا تو ان دو ہزار کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق اگر آپ کے پاس آنے والے شخص نے خود آپ کے کزن سے موبائل خرید لیا تھاجس کا مطلب یہ ہے کہ اِس شخص نے آپ کو فقط قبضے کا وکیل بنایا ہے کہ آپ اپنے کزن سے موبائل وصول کرکے اسے دے دیں اور 12 ہزار روپے اس سے لے کر اپنے کزن کو دے دیں تو ایسی صورت میں آپ کے کزن کے لیے یہ موبائل اس آنے والے شخص کی رضا مندی کے بغیر آپ کو بیچنا جائز نہیں تھا،کیوں کہ وہ خود اس کا مالک نہیں رہا تھالہٰذا ایسی صورت میں آپ نے اس بیع کے ذریعہ جو 2 ہزار روپے حاصل کیے ہیں وہ آپ کے لیے جائز اور حلال نہیں ہیں ۔ البتہ اگر آپ یہ دو ہزار روپے اپنے کزن کو یہ حکم بتا کر ادا کردیں اور وہ یہ رقم پھر آپ کو ہدیہ کر دیں تو شرعاً اسمیں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 184) (قوله فإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع)… ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية)… فتح القدير (14/ 193) وإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية … مجمع الضمانات (ص: 270) إذا قال الرجل لغيره ادفع إلى فلان ألف درهم على أني ضامن لك به والمدفوع إليه حاضر يسمع فهذا استقراض من الآمر، والقابض وكيل بالقبض فإن استهلك القابض ضمن، وإن هلك في يده يهلك أمانة، وكذا لو قال له: أعطه ألفا على أني ضامن لك به، ولو قال: أقرضه ألفا على أني ضامن لك به والمدفوع إليه حاضر فقال: نعم فدفع فهو قرض على القابض والآمر ضامن. الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير (ص: 341) …وقالا لا يملك إبطال الخيار بوجه ما لأنه وكيل بالقبض وإبطال الخيار ليس من القبض ألا يرى أنه لا يبطل خيار العيب ولا خيار الشرط ولأبي حنيفة أنه مالك للقبض فيملك إتمامه وإتمام القبض ههنا بإبطال الخيار لأنه يمنع تمام القبض قبل الرؤية… الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 505) وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم…
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب