021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع کے اقالہ کا حکم
57006خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کو ختم کرنے کے مسائل

سوال

سوال:مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اپنا مکان ایک شخص کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا اور اس نے مجھے بیعانہ کی رقم ایک لاکھ روپے ادا کردی اور مکان کا سودا پندرہ لاکھ روپے پر طے پایا ، لیکن مسئلہ میرا یہ ہےکہ مجھے آگے مکان مناسب قیمت پر نہیں مل رہا تو اس صورت میں مکان خریدنے والے کو بیعانہ کی رقم لوٹاتے وقت زائد رقم دینا درست ہے اور بروکر کو بھی کمیشن کی رقم دینا ضروری ہے کیونکہ یہ سودا میں نے بروکر کے ذریعے ہی طے کیا تھا۔جواب دے کر رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر حتمی بیع ہوجانے کے بعداب اقالہ کی صورت میں بیعانہ کی رقم واپس کی جارہی ہے تو اقالہ کے لیے ایک تو یہ ضروری ہے کہ عاقدین باہمی رضامندی کے ساتھ بیع ختم کرنے پر راضی ہوں اوردوسرے یہ کہ خریدار نے مبیع کی جتنی قیمت ادا کی ہےوہ واپس صرف اتنی ہی رقم وصول کرے۔ بیعانہ کے طور پر ادا کی ہوئی رقم "ایک لاکھ روپے" سے زیادہ رقم واپس لینا اس کے لیےجائز نہیں۔البتہ بروکر نے مکان فروخت کرنے کی ذمہ داری پوری کردی ہے، اس لیےاس کو معاوضہ دینا ضروری ہے۔
حوالہ جات
”قال - رحمه الله - (وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب وجنس آخر لغو ولزمه الثمن الأول)" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي4/71 ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ) لأن الإقالة رفع العقد والعقد حق المتعاقدين وقد انعقد بتراضيهما فكان لهما رفعه دفعا للحاجة البناية شرح الهداية8/224 ط:دار الکتب العلمیۃ) ( (قوله: وبالسكوت عنه) المراد أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، وثبوته برجوع عين الثمن إلى مالكه كأن لم يدخل في الوجود غيره وهذا يستلزم تعين الأول، ونفي غيره من الزيادة والنقص وخلاف الجنس اهـ. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/125 ط:دار الفکر-بیروت) ( "إذا باع الدلال مالاً لآخر بنفسه تجب أجرة الدلال على البائع لا على المشتري ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما." (مرشد الحيران إلى معرفة أحوال الإنسان (ص: 85)المطبعۃ الكبری الامیریۃ) "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية" (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 400)دارالكتب العلمیۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد کامران

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب