021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اشاعتی ادارے میں ملازمت کا حکم
56990جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

1۔میں ایک اشاعتی ادارے میں کام کرتی ہوں ۔ہمارا رسالہ گھریلو خواتین کے لیے ہے۔ چنانچہ اس میں با مقصد ،تعمیری اور مثبت سوچ والی کہانیاں شائع ہوتی ہیں ۔اگر چہ یہ کہانیاں جھوٹ اور سچ کا آمیزہ ہوتی ہیں مگر ہمیں بڑی تعداد میں خطوط موصول ہوتے ہیں کہ خواتین نے ان سے صبر ،سچ اور قناعت دیگر اوصاف وغیرہ اپنے اندر پیدا کیے ہیں کوئی کوئی کہانی روما نٹک بھی ہوتی ہے مگر وہ بھی گھٹیا ، جنسی (خواہش) یا فحاشی پھیلانے والی نہیں ہوتی۔غرض یہ کہ سبق آموز اور کبھی کبھی اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ یہ کام جائز ہے ؟اس کی آمدنی حلال ہے؟میں صرف کتابت کرتی ہوں ، تصاویر وغیرہ کاکام ہماری ایڈیٹر کرتی ہیں ۔ 2۔لطائف کی پروف ریڈنگ کرنا اور منتخب کرنا کیسا ہے؟ 3۔میں کہانیاں بھی ایسی ہی لکھتی ہوں ۔مجھے اسٹاف کے دیگر ممبران نے بتایا ہے کہ آپ ادارے کے باہر کہانیاں نہیں لکھ سکتیں۔میں نے ادارے والوں کو کہانیاں دیں تو وہ بلا معاوضہ شائع کی گئیں۔چنانچہ میں نے فرضی نام سے دوسرے ادارے میں کہانیاں بھیج دیں ۔جن کا مجھے معاوضہ بھی موصول ہوگیا ۔کیا میرا یہ فعل غلط ہے؟محض تفریحِ طبع کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے بارے میں کیا حکم ہے جبکہ وہ فحش نہ ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔اس طرح کی کہانیوں کی کتابت جائز ہے،اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال ہے۔اس لیے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو عرفاًاور شرعاً متقوم ہے اس لیے اس کا عوض لینا جائز ہے۔ اس طرح کی فرضی کہانیاں لکھنا اس لیے جائز ہے کہ اس میں شرعاً ناجائز امور :مثلاً جھوٹ، تزویر اور افتراء کا ارتکاب لازم نہیں آتا ۔اس لیے کہ جھوٹ تزویر اور افتراء میں لازمی عنصر یہ ہے کہ کسی نفس الامری حقیقت کی حکایت ہو یا کسی نفس الامری صورتِ حال اور چیزوں کے متعلق کوئی بات کی گئی ہو ، لیکن نفس الامر کے مطابق نہ ہو، جیسا کہ دلائل سے واضح ہے، جبکہ اِس طرح کی کہانہوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ 2۔لطائف کی پروف ریڈنگ اور انتخاب بھی جائز ہے۔ 3۔مذکورہ ادارے میں ادارے کی طرف سے جو وقت کام کا آپ کے لیے متعین ہے اس وقت میں آپ کے لیے کوئی اور کام کرنا یہ درست نہیں ، البتہ اس وقت کے علاوہ میں آپ کسی اور کے لیے کہانیاں لکھیں یا اس کے علاوہ کوئی اور کام کرنا چاہیں تو یہ آپ کے لیے جائز ہے اور اس کی آمدنی حلال ہے ۔ اس لیے کہ آپ جو کہانیاں اس وقت کے علاوہ میں لکھ کر کسی بھی ادارے کو دیں گی اور وہ اس کے عوض میں آپ کو جو پیسے دیں گے یہ در اصل دو چیزیں آپ ان کو فروخت کر رہی ہوتی ہیں ایک مسودہ اور دوسرا حق طباعت،لہٰذا اس کا عوض لینا جائز ہے اور آپ کے لیے یہ آمدنی حلال ہے۔تفریحِ طبع بھی ایک ضرورت ہے، اس کے لیے بھی کہانیاں لکھنا جائز ہے۔
حوالہ جات
قال فی الموسوعۃ الفقہیۃ احالۃ علی مصباح المنیر:"الکذب الاخبار عن الشیئ بخلاف ما ھو ،سواء فیہ العمد او الخطا ، ولا یخرج اصطلاح الفقہاء عن المعنی اللغوی." وقال :"ومذھب اھل الحق ان الکذب : الاخبار عن الشیئ بخلاف ما ھو علیہ." (الموسوعۃ الفقہیۃ احالۃ علی مصباح المنیر 34/205 ( وقال:"والصلۃ بین الکذب والافتراء عموم وخصوص مطلقاً، فان الکذب قد یقع علی سبیل الافساد وقد یکون علی سبیل الاصلاح …اما الافتراء فان استعمالہ لا یکون الا فی الافساد ." (الموسوعۃ الفقہیۃ احالۃ علی مصباح المنیر 34/204) وقال :"التزویر عن اللغۃ:تزیین الکذب …وفی الاصطلاح تحسین الشیئ ووصفہ بخلاف صفتہ ،حتی یخیل الی من سمعہ او رآہ انہ بخلاف ما ھو علیہ فی الحقیقۃ فھو تمویہ الباطل بما یوھم انہ حق ،وبین الکذب و التزویر عموم و خصوص وجھی ، فالتزویر یکون فی القول والفعل، والکذب لا یکون الا فی القول." الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 404) ويحل التفرج عليهم حينئذ وحديث «حدثوا عن بني إسرائيل» يفيد حل سماع الأعاجيب والغرائب من كل ما لا يتيقن كذبه بقصد الفرجة لا الحجة بل وما يتيقن كذبه لكن بقصد ضرب الأمثال والمواعظ وتعليم نحو الشجاعة على ألسنة آدميين أو حيوانات ذكره ابن حجر. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 422) القصص المكروه أن يحدثهم بما ليس له أصل معروف أو يعظهم بما لا يتعظ به أو يزيد وينقص يعني في أصله، أما للتزين بالعبارات اللطيفة المرققة والشرح لفوائده فذلك حسن. المبسوط للسرخسي (16/ 42) ولو استأجر رجلا يكتب له مصحفا، أو فقها معلوما كان جائزا؛ لأن الكتابة عمل معلوم وهو يتحقق من المسلم والكافر، ثم الاستئجار عليه متعارف وقيل الاستئجار على الكتابة كالاستئجار على الصياغة؛ لأن بعمله يحدث لون الحبر في البياض أو كالاستئجار على النقش، وذلك جائز إذا كان معلوما عند أهل الصنعة.(قال) الشيخ الإمام - رحمه الله - الأصح عندي أن المقصود هنا يحصل بعمل الأجير وهي الكتابة بخلاف التعليم فالمقصود هناك لا يحصل إلا بمعنى في المتعلم وإيجاد ذلك ليس في وسع المعلم بينهما… الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 505) وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم… المبسوط للسرخسي (14/ 4) وما كان مالا متقوما شرعا فالاعتياض عنه جائز…
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب