021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمیشن کا حکم
55157خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

:1:پراپرٹی کے کام ہم عموماً لوگوں کے لیے گھر، پلاٹ خرید کر دیتے ہیں اور جو رقم کل پلاٹ/ گھر کی ہو تو اس پر ایک فیصد کمیشن لیتے ہیں بعض مرتبہ کوئی دوست تعلق یا واسطہ والے کی نسبت سے کوئی خریدار آتا ہے جب ہم اس کے لیے گھر یا پلاٹ خرید کر دیتے ہیں تو وہ آدمی جو لانے کا سبب بنا یا ہم تک راستہ دکھانے کا کام کیا وہ اپنا حصہ غیر متعین طور پر مانگتا ہے ہمیں بھی کچھ کمیشن میں سے دیا جائے اور کبھی مطالبہ متعین کر کے بھی حصہ مانگتے ہیں حالانکہ باقاعدہ وہ کام نہیں کرتے پس یہ کہہ دیتے ہیں یہ میرا جزوی کاروبار ہے آیا ایسے آدمی کو خوشی سے یا ناگواری سے کچھ دینا جائز ہے یا مجبوراً دینا ہمارے لیے اس کی گنجائش ہے؟ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں ایجنٹ تک لانے والا شخص اگر کمیشن طے کرکے ملاقات کروائےتو اس پر وہ طے شدہ رقم لے سکتا ہے۔ البتہ اگر وہ ملاقات کروانے سے پہلے اپنا کمیشن طے نہ کرےتو ایسی صورت میں اگر وہ معروف ایجنٹ ہے،یعنی وہ عموماً یہ کام اجرت پر ہی کرتا ہےتو وہ اجرت مثل (یعنی اس جیسے شخص کی جتنی اجرت ہوتی ہے)کا مستحق ہوگا۔
حوالہ جات
"إذا باع الدلال مالاً لآخر بنفسه تجب أجرة الدلال على البائع لا على المشتري ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما." (مرشد الحيران إلى معرفة أحوال الإنسان (ص: 85)المطبعۃ الكبری الامیریۃ) "قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/63ط:دار الفکر بیروت) "وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، (قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/42 ط:دارالفکر بیروت) "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف، وتمامه في شرح الوهبانية" (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 400)دارالكتب العلمیۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد کامران

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب