03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت میں ملنے والے حصہ کو بیچنے کا حکم
57128میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم محترم مفتی صاحب! ہمارے والد کا ایک مکان تھا جو ہم بنانا چاہتے تھے لیکن مطلوبہ رقم موجود نہ تھی۔ طے یہ ہوا کہ رقم "ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن" سے لی جائے۔ جب HBFC گیا اور والد صاحب کا ID CARD دکھایا تو پتا چلا کہ والد صاحب کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ قرض نہیں لے سکتے۔ جب والد صاحب کو بتایا کہ قرض اس کو مل سکتا ہے جس کی عمر غالبا ساٹھ سے کم ہو، تو والد صاحب نے کہا کہ یہ مکان میں تم دونوں بھائیوں کے نام پر کرتا ہوں، اس طرح ہمیں قرض مل جائے گا۔ مکان ہم دونوں بھائیوں کے نام رجسٹرڈ ہوا۔ ہم نے پوچھا یا کسی نے بتایا کہ HBFC جو قرض دیتی ہے تو واپسی سود کے ساتھ کرنی پڑتی ہے۔ ہمارا ارادہ قرض لینے کا ملتوی ہوا۔ یہ واقعہ 2000ء کا ہے۔ پھر والد صاحب کی2014ء میں وفات ہوگئی۔ مکان بدستور میرےاور میرے بھائی کے نام رجسٹری ہے۔ تین بہنوں کی شادی ہمارے والدین کی زندگی میں ہو چکی تھی۔ ایک بہن ہم دونوں بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ والدہ کا انتقال بھی 2006ء میں ہوا تھا۔ والدین کی زندگی سے اب تک یہ گھر ہمارے پاس ہے۔کیا اب اس مکان میں ہم دونوں بھائی، بہنوں کو حصہ دیں گے؟ یا بہنوں کے ساتھ مل کر اس مکان کی قیمت لگاکر ان کے حصے ہم دونوں بھائی، بہنوں سے خرید سکتے ہیں؟ اگر کوئی بہن یہ کہہ دے کہ مجھے حصہ نہیں چاہیے یا میں تم دونوں بھائیوں کو معاف کرتی ہوں تو کیا بہن کے کہہ دینے سے ان کا حصہ معاف ہوجائے گا یا بدستور بھائیوں کے پاس بہن کی امانت رہےگی؟ اور اگر بہن کے حصہ کی جو رقم ہو تو پہلے بہن کے قبضہ میں دی گئی اور پھر رقم لینے کے بعد بہن یہ کہہ کر لوٹا سکتی ہے کہ رقم آپ لے لیں، میں آپ کو معاف کرتی ہوں؟ تو کیا ایسا کہنے سے اس کا حصہ معاف ہوجائےگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ مکان آپ کے والد کا ترکہ شمار ہوگا اور تمام ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ (2) بہنیں اگر رضامندی سے اپنا حصہ بیچنا چاہیں تو آپ خرید سکتے ہیں۔ (3) "مجھے اپنا حصہ نہیں چاہیے" یا "میں تم دونوں بھائیوں کو معاف کرتی ہوں" کہنے سے بہن کا حصہ ختم نہیں ہوگا، ان کا حصہ بدستور آپ کے ذمہ رہے گا۔ (4) اگرکوئی بہن اپنے حصہ کی رقم وصول کرلے اور اس کے بعد کسی کو وہ ہِبہ کرےتواس طرح وہ کرسکتی ہے۔اسطرح ہبہ صحیح ہو جائے گا۔
حوالہ جات
(1)قال العلامة المرغیناني: الهبة عقد مشروع ......... وتصح بالإيجاب والقبول والقبض. أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك. (الهداية في شرح بداية المبتدي: 3/222) قال العلامة الحصكفي: (وهب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 5/697) (2) قال العلامة الزیلعي: وبيع المشاع يجوز من شريكه ومن غير شريكه بالإجماع سواء كان مما يحتمل القسمة أو مما لا يحتمل القسمة. (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: 5/126) قال العلامة الشامي: والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز وما لا فجائز عيني. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 5/148) (3-4) قال العلامة ابن نجیم: لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك. (الأشباه والنظائر لابن نجيم: ص:272) قال العلامةالحموي: (قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ) اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء. (غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر: 3/354) قال العلامة المرغیناني: قال:"ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة" .......... "ولو وهب من شريكه لا يجوز"؛ لأن الحكم يدار على نفس الشيوع. (الهداية في شرح بداية المبتدي: 3/223) قال العلامة الحصکفي: (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب. ........ (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 5/692)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب