021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریک کو تنخواہ پر رکھنا
57394شرکت کے مسائلمعاصر کمپنیوں کے مسائل

سوال

زید اور بکر کمپیوٹر سوفٹ ویئر (computer software) میں ملتی جلتی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔دونوں نے اپنے وسائل اختیار کرتے ہوئے مل کر کام شروع کیا کہ وہ گاہکوں سے رابطہ کرکے سوفٹ ویئر کے پروجیکٹ حاصل کریں گے اور ان پر مل کر کام کریں گے۔ اس کو انھوں نے کمپنی کا نام دیا ۔ اب جو بھی آمدنی آتی ہے اسے وہ کمپنی کی آمدنی کہتے ہیں جو اصل میں ان کی مشترکہ آمدنی ہوتی ہے۔ اس آمدنی سے وہ باہمی رضامندی سے 50-50 فیصد کی بنیاد پر کچھ حصہ اپنے استعمال کے لیے نکال لیتے ہیں اور باقی آمدنی کمپنی کی بقاء اور بڑھوتری کےلیے استعمال ہوتی ہے۔ تقریبا پانچ سال گزرنے کے بعد موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے: 1۔ کمپنی کے پاس کرائے کی ایک آفس کی جگہ ہے جس کا سیکیورٹی ڈپازٹ اور تزئین و آرائش کا خرچہ کمپنی کی آمدنی سے ادا کیا گیا اور ماہانہ اخراجات بھی اسی سے ادا کیے جاتے ہیں۔ 2۔کمپنی کی ملکیت میں کئی AC, laptops اور دیگر آفس کا ساما ن مثلا میزیں کرسیاں وغیرہ ہیں۔ 3۔ کمپنی کے پاس 6-5 تنخواہ دار ملازمین ہیں جن کی تنخواہ کمپنی کی آمدنی سے ادا کی جاتی ہے۔ 4- زید اور بکر 50-50 فیصد نفع نقصان کے حصے دار ہیں۔ اب بکر یہ چاہتاہے کہ کوئی ایسی ترتیب بن جائے جس سے اسے ایک مقررہ تنخواہ ملے اور وہ کسی درجے میں نفع و نقصان میں بھی شراکت دار رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بعض بڑی کمپنیز میں بعض اوپری سطح کے ملازمین کو ایک مقررہ ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ساتھ میں وہ بعض شیئرز میں بھی نفع نقصان کے حقدار ہوتے ہیں۔ بکر کے لیے یہ ترتیب حاصل کرنے کی جائز صورتیں کیا ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریک کو ملازم رکھ کر اس کےلیے تنخواہ مقرر کرنے کو فقہاء نے ممنوع قرار دیا ہے ،اس لیے کہ اس صورت میں یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ اس طرح کسی ایک شریک کے لیے جتنی تنخواہ مقرر کی جائے ، کل نفع اتنا ہو، جس سے شرکت ختم ہوجائی گی۔مذکورہ صورت میں بکر کو مستقل تنخواہ پر رکھنا اور نفع میں فیصدی حصہ دینا جائز ہے لیکن اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ نفع کے تناسب میں اضافہ کردیا جائے ۔ مثلا 50۔50 فیصد کی بجائے 40۔60 فیصد نفع میں شرکت اختیار کریں۔
حوالہ جات
1۔"(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر" فإن قيل: عدم استحقاقه للأجر على فعل نفسه لا يستلزم عدمه بالنسبة إلى ما وقع لغيره. فالجواب أنه عامل لنفسه فقط؛ لأنه الأصل وعمله لغيره مبني على أمر مخالف للقياس فاعتبر الأول، ولأنه ما من جزء يحمله إلا وهو شريك فيه فلا يتحقق تسليم المعقود عليه؛ لأنه يمنع تسليم العمل إلى غيره فلا أجر عناية وتبيين ملخصا۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 60) مذکورہ عبارت نقل کرکے حضرت مفتی رشید احمدصاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: " شریک کو اجیر رکھنے کا عدم جواز کسی نص شرعی سے ثابت نہیں۔" احسن الفتاوی (جلد 7 ص: 321تا 328) "وأما مكاتبة علي بن أبي طالب - رضي الله تعالى عنه - قال: الربح على ما اشترطا، والوضيعة على المال. وإنما يذكر هذا ليكون أبعد عن الاختلاف،" المبسوط للسرخسي (11/ 156) "قوله: (وحكمها الشركة في الربح) الواو للحال ط: أي فيلزم انتفاء حكمها لو لم يربح غير المسمى، ويحمل كون الواو للعطف على قوله: وشرطها. مطلب: اشتراط الربح متفاوتا صحيح، بخلاف اشتراط الخسران ۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 305) ۔"قال: "وأما شركة الصنائع" وتسمى شركة التقبل "كالخياطين والصباغين يشتركان على أن يتقبلا الأعمال ويكون الكسب بينهما فيجوز ذلك" وهذا عندنا. وقال زفر والشافعي: لا تجوز لأن هذه شركة لا تفيد مقصودها وهو التثمير؛ لأنه لا بد من رأس المال، وهذا لأن الشركة في الربح تبتنى على الشركة في المال على أصلهما على ما قررناه. "ولو شرطا العمل نصفين والمال أثلاثا جاز" وفي القياس: لا يجوز؛ لأن الضمان بقدر العمل، فالزيادة عليه ربح ما لم يضمن فلم يجز العقد لتأديته إليه، وصار كشركة الوجوه، ولكنا نقول: ما يأخذه لا يأخذه ربحا لأن الربح عند اتحاد الجنس، وقد اختلف لأن رأس المال عمل والربح مال فكان بدل العمل والعمل يتقوم بالتقويم فيتقدر بقدر ما قوم به فلا يحرم، بخلاف شركة الوجوه؛ لأن جنس المال متفق والربح يتحقق في الجنس المتفق، وربح ما لم يضمن لا يجوز إلا في المضاربة." الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 11) ۔غیر سودی بینکاری (ص:347) 4۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب