سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے تجارت کے لئے پلاٹ خرید ا اس وقت اسکی قیمت دولاکھ تھی اب اسکی قیمت دس گنا زیادہ ہے۔ کیا ایسے شخص پر اس کی زکوۃ لازم ہے؟
o
اگر کوئی شخص تجارت کےلیے پلاٹ خریدے اور اس کی قیمت زکوۃ کے نصاب تک پہنچ جائے اور چاند کے حساب سے اس پر ایک سال بھی گزرجائے تو اس صورت میں اس پر زکوۃ کی ادائیگی لازم ہے۔پلاٹ پر سال گزرنے کے بعد جو بھی قیمت ہوگی ،اس کا چالیسواں حصہ( ڈھائی فیصد) ادا کرنا لازم ہوگا۔ بشرطیکہ اس ذمہ کسی کا قرض نہ ہو، اگر قرض ہے تو اسے منہا کرکرکے باقی مال اگر بقدر نصاب موجود ہے تو اس کی زکوۃ اسی طرح ادا کرے گا۔
حوالہ جات
الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول " أما الوجوب فلقوله تعالى: {وَآتُوا الزَّكَاةَ} [البقرة: 43] ولقوله صلى الله عليه وسلم " أدوا زكاة أموالكم " وعليه إجماع الأمة
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 95)
"ولا بد من ملك مقدار النصاب لأنه صلى الله عليه وسلم قدر السبب به ولا بد من الحول لأنه لا بد من مدة يتحقق فيها النماء وقدرها الشرع بالحول لقوله صلى الله عليه وسلم " لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول "۔۔۔۔۔۔۔۔۔لأن السبب هو المال النامي۔۔۔۔وإن اشترى شيئا ونواه للتجارة كان للتجارة لاتصال النية بالعمل بخلاف ما إذا ورث ونوى التجارة "
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 96)