021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ تام ہونے کے بعد رجوع کرنایاکسی اورکوہبہ کادعوی کرنا
57763ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے سگے چچاپھلاخان مرحوم کاایک بیٹا تھاجوان کی زندگی میں کنوارادنیاسے رخصت ہوگیا،مجھے (محمدخان)اورمیرے بھائی کے بچوں (میرے بھتیجے تنویراسلم،عرفان اسلم) خسرہ نمبر 935 سے مورخہ 15/09/2012 کومیرے سگے چچانے 4 کنال زمین ہبہ بخشش کی،اوردوکنال میرے نام اوردوکنال میرے بھتیجوں کے نام(تنویراسلم،عرفان اسلم) سرکاری کاغذات میں منتقل کردی،میں نے اپنے حصہ کی دوکنال زمین علیحدہ پیمائش کرکے لے لی تھی،اوراس پراپناقبضہ بھی ہل وغیرہ چلاکر لے لیا،اورتقریبا ساڑھے تین سال زمین میرے پاس رہی،ساڑھے تین سال کاعرصہ گزرنے کے بعد میرے چچامرحوم نے جورقبہ (دوکنال)میرے نام ہبہ(بخشش)کیاتھا،اورسرکاری کاغذات میں میرے نام منتقل کردیاتھا،اورمجھے قبضہ بھی دیدیاتھا،وہ رقبہ مجھ سے پوچھے بغیر زبانی کلامی میرے بھتیجوں تنویراسلم،عرفان اسلم کویہ کہہ کردیدیاکہ میں نے تویہ دوکنال(محمدخان کے حصہ کے) تنویراسلم،عرفان اسلم کے والد محمداسلم کوبخشش کی ہوئی تھی،حالانکہ جب مجھے زمین ہبہ کی اورمیرے نام سرکاری کاغذات میں منتقل کی تواس وقت یہ ہبہ والی بات نہیں کی اورنہ کوئی تحریرایسی موجودہےجس سے پتہ چلتاہو کہ واقعی یہ دوکنال مجھے ہبہ کرنے سے پہلے میرے مرحوم بھائی محمد اسلم کومیرے چچانے ہبہ کی ہواورنہ ساڑھے تین سال کے عرصہ میں اس کے متعلق مجھ سے کوئی بات کی(سرکاری کاغذات میں زمین اب بھی میرے نام ہے)اس سوال پرعلماء دین کیارائے رکھتے ہیں،قرآن وسنت کی روشنی میں کہ کیاکوئی آدمی کسی کوزمین ہبہ کرکے اورسرکاری کاغذات میں اس کے نام منتقل کرکے اورقبضہ دے کرپھروہی زمین کسی دوسرے آدمی کوزبانی کلامی بغیراجازت کے دیدے؟اب زمین کاشریعت میں مالک کون ہے؟ہمارے درمیان اس بات پرتنازعہ چل رہاہے،براہ کرم جلدی جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہبہ میں رجوع کرناجائزنہیں،حدیث میں آتاہے،ہبہ کرکے کوئی چیزواپس لیناایساہےجیسے کتاایک دفعہ قے کرکے دوبارہ اسی کوچاٹتاہے،اس لئے ہبہ میں اصل حکم تویہ ہے کہ رجوع ناجائزومکروہ تحریمی ہے،اسی طرح اگرذی رحم محرم کوہبہ کیاتوبھی رجوع ناجائزومکروہ تحریمی ہے،البتہ جس کوہبہ کیاگیاہےوہ خودراضی ہویاقاضی کے ذریعہ(رجوع کا) فیصلہ کیاگیاہواورہبہ کے موانع میں سے کوئی مانع نہ ہو،تورجوع کرناجائزہوگا۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں چونکہ ہبہ بھی قبضہ کے ذریعہ مکمل ہوگیاتھا،اور یہ ہبہ بھی چچاکی طرف سے بھتیجے کوکیاگیاہےجوکہ ذی رحم محرم ہے،اس میں رجوع بھی جائزنہیں تھا،اس لئے آپ(محمدخان) ہی اس کے مالک ہیں،اورآپ کے چچاکامحمداسلم کوہبہ کادعوی کرنابھی درست نہیں،کیونکہ جب رجوع ہی جائزنہیں تھا تووہ چیز آپ کی ملک سے نکلی ہی نہیں،اس لئے کسی اورکوہبہ کادعوی بھی درست نہ ہوگا،البتہ اگرآپ واپس کرنے پرراضی ہوں توکرسکتے ہیں۔ پھلاخان مرحوم کایہ عمل(ایک دفعہ ہبہ کرکے پھرلے لینااورکسی اورکے نام ہبہ کادعوی کرنا)شرعاناجائزوحرام ہے، کسی مسلمان کے لئے جائزنہیں کہ دوہ دوسرے مسلمان کے ساتھ دھوکہ کرے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" 24 / ص 5: صح الرجوع فيها بعد القبض ) أما قبله فلم تتم الهبة ( مع انتفاع مانعه ) الآتي ( وإن كره ) الرجوع ( تحريما ) وقيل : تنزيها نهاية ( ولو مع إسقاط حقه من الرجوع ) فلا يسقط بإسقاطه خانية ۔ "خانیۃ علی ھامش الھندیۃ " 6 / ص 275 : وبعدالقبض لایرجع الابقضاء اورضا۔ "سنن الترمذي " 4 / 235: عن بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كالكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه قال أبو عيسى وفي الباب عن بن عباس وعبد الله بن عمرو۔ "صحيح البخاري " 3 / 164: عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ليس لنا مثل السوء الذي يعود في هبته كالكلب يرجع في قيئه۔ "رد المحتار"24 / 72: فلو وهب لذي رحم محرم منه ) نسبا (۔۔ لا يرجع )۔ "مستدرك الحاكم" 3 / 61: حدثنا عبد الله بن المبارك عن حماد عن قتادة عن الحسن عن سمرة رضى الله تعالى عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا كانت الهبة لذي رحم محرم لم يرجع فيها هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه۔

محمد بن حضرت استاذ صاحب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/07/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے