021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوسرے کی چیز بلا اجازت استعمال کرنا
57774امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

محترم و مکرم مفتی صاحب! بندہ ہاسٹل میں رہتا ہے، وہاں اس کے مختلف دوست ہیں۔ بعض گہرے اور بعض دوست جو گہرے نہیں ہیں۔ بندہ بعض اوقات اپنے دوست کی چیز استعمال کرتا ہے، صرف اس توقع پر کہ وہ میرے دوست ہے۔ وہ مجھے اس کے معلوم ہونے کے بعد منع نہیں کریں گے۔ تو آیا میرا ان چیزوں کو عاریت کے طور پر استعمال کرنا کیسا ہے۔ ہاسٹل میں ہماری کچھ ایسی لاپرواہ سی عادت ہے کہ اس حوالے سے بہت سستی پائی جاتی ہے۔ اکثروبیشتر ہم سرسوں کا تیل، تولیہ، صابن وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ آیا ان چیزوں کو عاریت کے طور پر استعمال کرنا کیسا ہے۔ اس حوالہ سے مکمل رہنمائی کی جائے۔ عاریت کے طور پر چیزوں کے استعمال کرنے کے حوالے سے ضابطہ واضح کیجیے۔ اگر جائز نہیں تو ان کے تدارک کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ میرا یہ مزاج ہے کہ اگر میری کوئی چیز استعمال کرے تو میں بالکل ناراض نہیں ہوتا تو اسی پر میں قیاس کرکے ساتھیوں کی چیز استعمال کرتاہوں۔ برائے کرم اس حوالہ سے رہنمائی کیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر آپ کو یقین ہو کہ آپ کے دوست آپ کے استعمال کرنے پر ناگواری محسوس نہیں کریں گےتوآپ کے لیے ان کی چیزوں کو استعمال کرنا جائز ہوگا۔ البتہ اگر وہ آپ کے ان کی چیزوں کو استعمال کرنے پر ناگواری کا اظہار کریں یا دوست اتنا قریبی نہ ہو جس کے ناراض نہ ہونے کی قوی توقع ہوتو آپ کے لیے ان کی چیزوں کو صراحۃً اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور صراحۃً اجازت کے بغیر ان کی چیزوں کو استعمال کرنے پرآپ ان سے معافی مانگے۔
حوالہ جات
"(هي) لغة - مشددة وتخفف -: إعارة لشيء قاموس. وشرعا (تمليك المنافع مجانا)أفاد بالتمليك لزوم الإيجاب والقبول ولو فعلا وحكمها كونها أمانة… (قوله: ولو فعلا) أي كالتعاطي في القهستاني: وهذا مبالغة على القبول، وأما الإيجاب فلا يصح به، وعليه يتفرع ما سيأتي قريبا من قول المولى: خذه واستخدمه. والظاهر أن هذا هو المراد بما نقل عن الهندية، وركنها الإيجاب من المعير، وأما القبول من المستعير، فليس بشرط عند أصحابنا الثلاثة اهـ أي القبول صريحا غير شرط بخلاف الإيجاب، ولهذا قال في التتارخانية: إن الإعارة لا تثبت بالسكوت اهـ وإلا لزم أن لا يكون أخذها قبولا." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/676 ط: دار الفکر- بیروت) " أما ركنها: فهو الإيجاب من المعير، وأما القبول من المستعير فليس بركن عند أصحابنا الثلاثة استحسانا، والقياس أن يكون ركنا وهو قول زفر، كما في الهبة، حتى أن من حلف لا يعير فلانا فأعاره ولم يقبل يحنث كما إذا حلف لا يهب فلانا شيئا فوهبه ولم يقبل، وهي مسألة كتاب الهبة والإيجاب هو أن يقول: أعرتك هذا الشيء، أو منحتك هذا الثوب أو هذه الدار، أو أطعمتك هذه الأرض أو هذه الأرض لك طعمة، أو أخدمتك هذا العبد أو هذا العبد لك خدمة، أو حملتك على هذه الدابة إذا لم ينو به الهبة أو داري سكنى أو داري لك عمرى سكنى أما لفظ الإعارة فصريح في بابها." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/214 ط:دار الکتب العلمیۃ) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم باالصواب سید کامران دارالافتاء ، جامعۃ الرشید 28 رجب1438ھ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب