021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہتمم طلبہ کی طرف سے وکیل بن کرزکوۃ کامال وصول کرسکتاہے
57793 زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

:مسئلہ جناب مفتی صاحب زکوۃ کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ مال سے زکوۃ کونکال کرآگے مستحق کودے کرمالک بنایاجائے۔ اب میں ایک کاروباری آدمی ہوں،اورچچارشتہ داروغیرہ بھی مالدار،کاروباری اوردنیادارہیں،میں نے ایک مدرسے سے دورہ حدیث کرلیاہے،الحمدللہ اب مولوی ہوں،اوراپنے علاقہ میں ایک چھوٹاسامدرسہ کھولاہے،اب میں اس مدرسے میں رہائشی بنیادپرطلبہ کورکھناچاہتاہوں،اپنی جان پہچان کے ذریعے لوگوں سے زکوۃ کامال وصول کرتاہوں۔ اپنے مال سے زکوۃ نکال کران طلبہ پرکس طرح خرچ کیاجائےیعنی ضروریات طلبہ جیسے مدرسہ کے لئے آٹا،چینی وغیرہ جوطلبہ کی ضروریات ہیں ان کولے کرخرچ کیاجائےیاپھران طلبہ کی طرف سے اقرارنامہ برائے وصولی زکوۃ یاوکیل بن کرکیاکیاجائے؟ براہ مہربانی کوئی صحیح صورت نکال کرجواب دیں تومہربانی ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک فقیر بہرحال ضروری ہے یعنی زکوۃ دینے والاشخص مستحق زکوۃ کو زکوۃکی رقم بغیرکسی عوض کے مالک بناکردے،مہتمم یامنتظمین طلبہ کی طرف سےان کی زبانی یاتحریری اجازت سے وکیل بن کرزکوۃ کامال وصول کریں،پھروہ مال طلبہ کے مصارف میں خرچ کریں، اس کی بہترصورت یہ ہے داخلہ کے وقت توکیل کی مندرجہ ذیل عبارت طلبہ سے پڑھواکر ان سے دستخط لے لئے جائیں تاکہ مہتمم کے لئے زکوۃ کامال وصول کرنااوراس کو مدرسہ وطلبہ کی ضروریات کے لئے استعمال کرناجائزہوجائے۔ توکیل کی عبارت: "میں مدرسہ کے سربراہ یااس کے مقررکردہ منتظم کووکیل بناتاہوں کہ وہ معطین(دینے والوں) سےزکوۃوصدقات واجبہ وغیرہ وصول کرکے میری طرف سے مدرسہ کے تعلیمی وفلاحی کاموں کے لئے عطیہ ووقف کردیں،پھربوقت ضرورت اس پرخرچ کریں"۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 6 / 445: ( هي ) لغة الطهارة والنماء ، وشرعا ( تمليك ) خرج الإباحة ، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم ( جزء مال ) خرج المنفعة ، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه۔ "رد المحتار" 7 / ,230226: ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة كما مر۔ وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره ؟ لم أره والظاهر نعم۔ قوله : وقدمنا ) أي قبيل قوله وافتراضها عمري ( قوله : أن الحيلة ) أي في الدفع إلى هذه الأشياء مع صحة الزكاة ۔ ( قوله ثم يأمره إلخ ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر ؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم ۔ ( قوله : والظاهر نعم ) البحث لصاحب النهر وقال ؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي : والظاهر أنه لا شبهة فيه ؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله وشرط عليه شرطا فاسدا والهبة والصدقة لا يفسدان بالشرط الفاسد۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب