021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرضوں کی ادائیگی کا حکم
57773خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ایک بات یہ پوچھنی ہے کہ بعض دفعہ میرا لوگوں کے ساتھ ادھار معاملہ ہوتا ہے۔میرے پاس بعض دفعہ پیسے ہونے کے باوجودمیں پیسے دینے میں تاخیر کرتا ہوں۔ بعض دفعہ ادھار کی تاریخ متعین کرنے کے باوجود بندہ ادا نہیں کرسکتا تو آپ ان دھار معاملات میں میری راہنمائی کیجیے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر دکانداروں کو معلوم نہیں ہوتا، وہ بھول جاتے ہیں کہ میں نے ادائیگی کرنی ہے۔ البتہ میرے پاس ہوتے ہیں لیکن دوسرے قرض داروں کو ادائیگی کردیتا ہوں۔برائے کرم مکمل رہنمائی کی جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں آپ پر لازم ہے کہ آپ نے جتنے لوگوں سے روپے ادھار لیے ہیں، ان کو مقررہ تاریخ میں ادا کریں۔اگر قرضوں کی ادائیگی کی مقررہ تاریخ آجائے اور آپ کے پاس روپے بھی موجود ہوں،اس کے باوجود آپ قرضوں کی ادائیگی نہ کریں تو آپ گنہگار ہوں گے۔ اسی طرح جو دکاندار آپ کو قرض دے کر بھول جاتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ ان کو مقررہ تاریخ میں ان کے قرضوں کی ادائیگی کریں۔اگر آپ اکثر بھول جاتے ہیں کہ کتنے پیسے لئے تھے اور کب واپس کرنے ہیں تو آپ ہمیشہ ادھار معاملہ کرتے وقت لکھ لیا کریں۔ قرآن پاک میں ایسے موقع پر لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حوالہ جات
"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) في سبع… والسابع (القرض) فلا يلزم تأجيله… (قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه، لكن قال في الهداية: فإن تأجيله لا يصح؛ لأنه إعارة وصلة في الابتداء حتى يصح بلفظة الإعارة ولا يملكه من لا يملك التبرع كالوصي والصبي، ومعاوضة في الانتهاء فعلى اعتبار الابتداء لا يلزم التأجيل فيه كما في الإعارة إذ لا جبر في التبرع، وعلى اعتبار الانتهاء لا يصح؛ لأنه يصير بيع الدراهم بالدراهم نسيئة وهو ربا اهـ. ومقتضاه أن قوله لا يصح على حقيقته؛ لأنه إذا وجد فيه مقتضى عدم اللزوم ومقتضى عدم الصحة، وكان الأول لا ينافي الثاني؛ لأن ما لا يصح لا يلزم وجب اعتبار عدم الصحة، ولهذا علل في الفتح لعدم الصحة أيضا بقوله: ولأنه لو لزم كان التبرع ملزما على المتبرع، ثم للمثل المردود حكم العين كأنه رد العين وإلا كان تمليك دراهم بدراهم بلا قبض في المجلس والتأجيل في الأعيان لا يصح اهـ ملخصا، ويؤيده ما في النهر عن القنية التأجيل في القرض باطل" ) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 5 /157 ط: دار الفکر بیروت) واللہ سبحانہ وتعالی اعلم باالصواب سید کامران دارالافتاء ، جامعۃ الرشید 28 رجب1438ھ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب