021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خدمات کے عوض میں زکوٰۃ کی رقم دینے کا حکم
57812زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

1. بعض لوگ کبھی اساتذہ اور عملہ کے وظائف کی نیت سے اور کبھی اراضی خریدنے کی نیت سے زکوۃ کی مد سے نقدی دیتے ہیں،ان کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ 2. زکوۃ کی مد میں آئی ہوئی رقوم سے مزدوروں کو اجرت دینا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے کسی مستحق کو مالک بنایا جائے ،جبکہ اساتذہ اور عملہ کے وظائف اور مزدور کی اجرت ان کی فراہم کی گئی خدمات کا معاوضہ ہوتا ہے،لہذا اگر مدرسے میں حیلہ تملیک کے طریقہ کار پر عمل نہ ہوتا ہو تو ایسے میں اساتذہ اور عملہ کے وظائف اور مزدور کی اجرت کی ادائیگی کے لیے دی جانے والی رقم ان کو دینےسے زکوٰۃ ادا نہ ہو گی،البتہ محض اراضی خریدنے کی نیت سے مستحق کو زکوۃ دینے میں چونکہ خاص مصرف کی شرط لگائی جارہی ہے جو کہ لغو ہےاس لیےشرط پوری کرنا لازم و ضروری نہیں،تاہم دی جانے والی رقم سےزکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ (تملیک کے حیلہ کا طریقہ دوسرے سوال کے جواب میں ذکر کر دیا گیا ہے)
حوالہ جات
)البنايةشرحالهداية:3/ 288( "والأحسنفيهذا: ماقالهالشيخحافظالدينالنسفي: الزكاةتمليكالمالمنفقيرمسلمغيرهاشميولامولاه،بشرطقطعالمنفعةعنالمالكمنكلوجهللهتعالى." )الفتاوىالهندية:1/ 190( "ولونوىالزكاةبمايدفعالمعلمإلىالخليفة،ولميستأجرهإنكانالخليفةبحاللولميدفعهيعلمالصبيانأيضاأجزأه،وإلافلا،وكذامايدفعهإلىالخدممنالرجالوالنساءفيالأعيادوغيرهابنيةالزكاة."
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب