021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مقررہ مدت میں ادھاررقم پوری نہ دینے پر نفع کی شرط لگانا
57969 خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ مسمی جمعہ خان نے افضل خان کوسلیمان دانے 6عدد ادھارفروخت کئےمبلغ پینتیس لاکھ روپے پر،اوراسٹام ہوئی،جس میں یہ طے کیاگیاکہ اگردوسال بعد مشتری رقم اداءنہ کرسکے توبائع عدالت سے رجوع کرےگا،اورقراقرم کوآپریٹوبینک ایک لاکھ پرجتنامنافع دیتاہے وہ منافع پرلاکھ کے حساب سے مشتری بائع کودینے کاپابند ہوگا۔بعدمیں مشتری نے وقت مقررہ پررقم اداء نہیں کی،اوردوسال کاعرصہ گزرگیا،ا سکے بعد وقتافوقتابائع کوکم کم کرکے مشتری رقم اداء کرتارہااورٹوٹل سترہ لاکھ روپے بائع کووصول ہوئے،اٹھارہ لاکھ اب تک بقایاہیں،چھ سال کاعرصہ گزرگیانہ اصل رقم اداء کی اورنہ ہی منافع،آخرتنگ آکربائع نے مشتری کے گھرسے اس کی تین گائیں ایک گھابن اوردودودھ دینے والی اٹھاکراس کی غیرموجودگی میں اس نیت سے لایاکہ قرضے سے ان گایوں کی قیمت منفی کریں گے،اورقیمت ایک غیرجانبدارسخص سے طے کرائیں گےچنانچہ بائع نے ان کی قیمت بھی لگوائی،توایک گائے کی قیمت غیرجانبدارشخص نے پچاس ہزار روپے لگائی،اب مشتری کہتاہےکہ میری غیرموجودگی میں میری گائیں اٹھائی ہیں،اس لئے اب میں گائے کی قیمت پانچ لاکھ روپے لگاکراس حساب سے قرض سے منہاکروں گا،اوریہ بات میں نے آپ کوپہلے بھی بتائی تھی کہ اگرزبردستی مجھ سے میری گائیں اٹھاؤگے تومیں یہ کروں گا،جبکہ بائع کاکہناہے کہ ایک دفعہ واقعتاجب میں نے قرض کامطالبہ کیااوراس نے نہیں دیاتوان کی گائیں اٹھانے کی دھمکی دینے پرمشتری نے مجھ سے یہ پانچ لاکھ والی بات کہی تھی اورکچھ لوگوں کے سامنے کہی تھی مگرمیں نے اس کوتسلیم نہیں کیاتھا،اوراسی وقت اس کی تردید کی تھی۔ بعدمیں ایک مولوی صاحب نے فریقین کے درمیان شرعی فیصلہ کرنے کے لئے دونوں کوبٹھایااورپہلے قسمیں لیں کہ دونوں فریق میرے فیصلے کوتسلیم کریں گے،اوراس شرعی فیصلہ کے اوپرکوئی دوسراشرعی فیصلہ کسی سے نہیں لیں گے۔مولوی صاحب کی اس بات کے جواب میں مشتری نے کہااے استاذاگرآپ نے صحیح شرعی فیصلہ کیاتوپھرہم کسی اورکے پاس دوبارہ شرعی فیصلہ کے لئے نہیں جائیں گے،اوراس کے فورابعد میں نے زبانی جملہ یہ کہاکہ ایک دوتین میری دو بیویاں طلاق ہوجائیں گی،اس کے بعد تین کنکریاں جومیرے ہاتھ میں پکڑائی گئیں تھیں ان کوپھینکا،مقصود میرے اس طرح قسم کھانے کایہ تھااوراس نیت سے ہی میں نے بے ربط الفاظ اداکئے تھے کہ اگریہ مولوی صاحب صحیح شرعی فیصلہ کرے گاتومیں مانوں گاورنہ شرعی فیصلہ کے لئے دوبارہ کسی اورسے رجوع کروں گا،اس کے بعد مولوی صاحب نے فیصلہ کیاکہ اب ان تین گائیوں کی قیمت پندرہ لاکھ روپے قرض سےمنہاہوگی،مولوی صاحب نے اسٹام کودیکھاہی نہیں،جوبائع اورمشتری کے درمیان سودے کے وقت ہوئی تھی،جس کی تفصیل اوپرگزری ہے،مشتری کے حوالہ سے یااس کاقرض بائع نے اب تک اداء کیوں نہیں کیااورپھراس اسٹام میں درج منافع جومشتری پررقم کی مقررہ وقت میں ادائیگی کی صورت میں لگایاگیاتھا،اس حوالہ سے کوئی بات نہیں کی اورمشتری کوکہاکہ اسٹام کےحوالہ سے آپ آزادہیں،میں نے صرف گائیوں کے معاملہ میں شرعی فیصلہ کیاہے،آپ گائیوں کی قیمت مبلغ پندرہ لاکھ مقروض سے کاٹ کرجوکچھ بنتاہےوہ اس سے وصول کرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ فیصلہ مولوی صاحب نے گواہوں کی اس جھوٹی گواہی کی بنیادپرکیاتھاکہ مشتری نے یہ بات مان لی تھی کہ اگروہ بائع کی گائیں زبردستی اٹھائے گاتووہ ان کی قیمت فی گائے پانچ لاکھ روپے مقررکرے گا۔ کیابائع اسٹام کے مطابق اب مشتری سے رقم پرمنافع وصول کرسکتاہے؟اب اگروہ منافع کادعوی نہیں کرتاتومشتری اورزیادہ بے لگام ہوجاتاہے۔ تنقیح:مشتری سے رقم پرمنافع لینے کاطریقہ یہ طے کیاگیاہےکہ اگردوسال میں رقم اداء نہیں کی توقراقرم بینک ایک لاکھ پرجتنامنافع دیتاہے،اتنی پینلٹی مشتری سے ہرایک لاکھ پرلی جائے گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بائع مشتری سےثمن کی ادائیگی میں تاخیرپرکسی قسم کامنافع وصول نہیں کرسکتا،کیونکہ یہ سودہونےکی وجہ سے ناجائزاورحرام ہے،اس طرح کی سودی شرط کے ساتھ معاملہ کرناجائزنہیں تھا،آپ لوگ اس شرط کے ساتھ معاملہ کرنے کی وجہ سے گناہگارہوئے ہیں،شرعی طورپریہ شرط بھی لغوتھی،لہذااس شرط کے باوجودآپ کوبعدمیں اپنی رقم پوری وصول کرنے کے بعد پرلاکھ اضافی رقم لینے کاشرعاکوئی اختیارنہیں،اگرآپ لیں گے تووہ سودہوگی اورآپ کے لئے جائزنہ ہوگی۔
حوالہ جات
"الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري" 3 / 57: ( باب الربا ) والربا حرام بالكتاب والسنة ، أما الكتاب فقوله : تعالى { وحرم الربا } ، وأما السنة فقوله : صلى الله عليه وسلم { أكل درهم واحد من الربا أشد من ثلاث وثلاثين زنية يزنيها الرجل ومن نبت لحمه من حرام فالنار أولى به } وقال ابن مسعود { آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهده إذا علموا به ملعونون على لسان محمد صلى الله عليه وسلم إلى يوم القيامة } كذا في النهاية . "السنن الكبرى للبيهقي" 5 / ص 27: حدثنا مالك عن زيد بن أسلم أنه قال : كان الربا فى الجاهلية أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل فإذا حل الحق قال أتقضى أم تربى فإن قضاه أخذ وإلا زاده فى حقه وزاده الآخر فى الأجل.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب