میری شادی 15سال قبل زید(فرضی نام) ولدبکر(فرضی نام)سےہوئی،جن سے میری تین بیٹیاں حناعمر14سال،حراعمر13سال اورلائبہ عمر12سال ہیں،شادی کےشروع دن سے ہی میراشوہرزید اپنی بہنوں اوربھائیوں کےبھکاوےمیں آکرمجھے تشددکانشانہ بناتاتھا،میں اپنے والدین اورگھرکی عزت کی خاطراس کاہرظلم برداشت کرتی رہی،تاریخ2015-6-1کومیں اپنے میکےکوٹ غلام محمدمیں تھی کہ زید نےمجھے طلاق نامہ ارسال کردیا،مجھ پرقیامت ٹوٹ پڑی ،میرے والدین ،بھائیوں اوردیگررشتہ داروں نے کوشش کی کہ کسی طرح راضی نامہ ہوجائے،لیکن زید کسی بھی طرح راضی نہ ہوا،اس دوران میری تین بیٹیاں جوکہ میرے پاس تھیں اورمیں نے بھی فون پرزیدسے رابطہ کیاکہ ہمیں معاف کرنےاوراپنےگھرلے جانےکی منتیں کیں،لیکن اس نے صاف جواب دے دیاکہ اوربیٹیوں کویہاں تک کہہ دیاکہ تم میرے لئےاب مرچکی ہو،میرااب تم سے کوئی واسطہ نہیں،واضح رہےکہ زید نےمجھے بدکرداراورغیرمردوں سے تعلقات کاالزام لگاکرطلاق دی ہے،جبکہ اس کے پاس کوئی گواہ نہیں کہ میں بدکرداراورغیرمردوں سے تعلق رکھتی ہوں،میری پاک دامنی کاسارامحلہ گواہی دےگا،میں اورمیری بیٹیاں صوم وصلوة کی پابندہیں،میراشوہرکثرت سے شراب نوشی کرتاہے اوراللہ تعالی کوحاضروناظرجان کرکہتی ہوں کہ زید میری اورمیری بیٹیوں کی موجودگی میں غیرعورتوں کوگھرلاکر ان سے زناکرتاتھا،لیکن میں اپنے شوہرکی عزت کی خاطرخاموشی سے زہرکے گھونٹ پیتی رہتی،اب زیدنے سول جج کنری کی عدالت میں اپنی بیٹیوں کی حوالگی کے لئے کیس کررکھاہے،آپ قرآن وسنت کے مطابق فتوی جاری کریں کہ کیابیٹیاں زیدکے سپردکی جاسکتی ہیں؟جبکہ میں ان کی تعلیم وتربیت کامکمل خیال رکھتی ہوں اوربیٹیاں بھی زید کے پاس جانے کے لئے راضی نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسؤلہ میں اگرواقعی زید شراب وبدکاری جیسے گناہوں میں مبتلی ہے اوربچیوں کواس کے حوالہ کرنےکی صورت میں بچیوں کے اخلاق خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہےتواس صورت میں بچیوں کی تربیت کی ذمہ داری اوران کواپنے پاس رکھنے کی حق دار والدہ ہے،زید ان بچیوں کواپنےپاس رکھنے کامطالبہ نہیں کرسکتا۔
حوالہ جات
رد المحتار (ج 13 / ص 50):
”قلت : الأصوب التفصيل ، وهو أن الحاضنة إذا كانت تأكل وحدها وابنها معها فلها حق لأن الأجنبي لا سبيل له عليها ولا على ولدها بخلاف ما إذا كانت في عيال ذلك الأجنبي ، أو كانت زوجة له ، وأنت علمت أن سقوط الحضانة بذلك لدفع الضرر عن الصغير ، فينبغي للمفتي أن يكون ذا بصيرة ليراعي الأصلح للولد ، فإنه قد يكون له قريب مبغض له يتمنى موته ويكون زوج أمه مشفقا عليه يعز عليه فراقه فيريد قريبه أخذه منها ليؤذيه ويؤذيها ، أو ليأكل من نفقته أو نحو ذلك ، وقد يكون له زوجة تؤذيه أضعاف ما يؤذيه زوج أمه الأجنبي وقد يكون له أولاد يخشى على البنت منهم الفتنة لسكناها معهم ، فإذا علم المفتي ، أو القاضي شيئا من ذلك لا يحل له نزعه من أمه لأن مدار أمر الحضانة على نفع الولد “
رد المحتار (ج 13 / ص 54):
"إذا انتهت الحضانة ولم يوجد له عصبة ولا وصي فالظاهر أنه يترك عند الحاضنة ، إلا أن يرى القاضي غيرها أولى له ، والله أعلم ."