021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں نفع کی شرح کی بنیادسرمایہ پر رکھنا
57984مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

چند سال پہلے کچھ رقم میں نے اپنےدوست کو دی، اس نےاس رقم سے ایک دکان کھول لی ، نفع کے سلسلے میں میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو آپ کے لگائے ہوئے سرمائے کا ۱ فیصد ہر ماہ دوں گا ۔اس کے بعد میں کافی مصروف رہا ، میں نے پلٹ کر اس سے نفع کا نہیں پوچھا، اب جب میں نے اس سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس نفع کا حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن میں آپ کو نفع دینے کے لیے تیار ہوں،آپ سے یہ ہی گزارش ہے کہ آپ رہنمائی فرمادیجئے کہ اب میں اپنے دوست سے کس حساب سے نفع میں حصہ لے سکتا ہوں ۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ معاملہ شرعی اعتبار سے" مضاربہ" کہلاتا ہے، جس کے صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ معاہدے کے وقت نفع کی شرح سرمائے کے بجائے حاصل ہونے والے حقیقی نفع کی بنیاد پر طےکیا جائے، جبکہ مذکورہ معاملے میں نفع سرمائے کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے، لہذا یہ معاملہ فاسد ہے، اب اس کا حکم یہ ہے کہ اس فاسد معاملے پر استغفار كی جائے۔ حساب یوں كیا جائے كہ اس کاروبار کا اصل سرمایہ (جو شروع میں آپ نےدیا تھا)اور پورا نفع آپ کو ملے گا اور آپ کے دوست کو اس کی محنت کی اجرتِ مثل (مارکیٹ میں ان کی جیسی قابلیت کے افراد کو اس قسم کے کام پر دی جانے والی اجرت) ملے گی، اگر نفع کا حساب بالکل موجود نہیں توکاروباری احوال کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے نفع کی مقدارطے کی جائے گی،اس کے بعد مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
حوالہ جات
"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة… (قوله: في الربح) كما إذا شرط له نصف الربح أو ثلثه بأو الترديدية س (قوله فيه) كما لو شرط لأحدهما دراهم مسماة س (قوله بطل الشرط) كشرط الخسران على المضارب" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/648 ط:دار الفکر بیروت) " (قوله في المتن ويكون الربح بينهما مشاعا) قال الأتقاني وذلك؛ لأن المقصود من عقد المضاربة هو الشركة في الربح فإذا اشترط لأحدهما دراهم مسماة كالمائة ونحوها تفسد المضاربة؛ لأن شرط ذلك يفضي إلى قطع الشركة؛ لأنه ربما لا يكون الربح إلا ذلك القدر فلا يبقى للآخر شيء من الربح قال شمس الأئمة البيهقي في الكفاية شرطه أن يكون قدرا معلوما مشاعا من كل الربح مثل الثلث والربع فإذا شرط لأحدهما مائة من الربح مثلا أو مائة مع الثلث أو الثلث إلا مائة والباقي للآخر لم تجز المضاربة؛ لأنه يؤدي إلى قطع الشركة في الربح لجواز أن لا يربح إلا ذلك القدر" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي 5/54 ط: المطبعۃ الکبری الامیریہ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب