021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈسٹری بیوٹر کا سپلائر سے مشروط ڈسکاؤنٹ طے کرنا
57935خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ہمارا کام ڈسٹری بیوشن کا ہے یعنی کمپنی ے بڑی مقدار میں مال خرید کر آگے دکاندار کو بیچتے ہیں۔یہ کام ایک طے شدہ ڈسٹری بیوشن معاہدے کے تحت ہوتا ہےجس میں ہمارا اور کمپنی کا اس بات پر اتفاق ہوتا ہےکہ کمپنی ہمیں کس قیمت پر مال بیچے گی اور ہم آگے دکاندار کو کتنا منافع رکھ کر فروخت کریں گے(مثلاً٪5) کام کی نوعیت: بعض دفعہ ہم کسی نئی پراڈکٹ کیڈسٹری بیوشن کا معاہدہ کسی کمپنی سے کرتے ہیں جو مارکیٹ میں بالکل نئی ہوتی ہےاور ہمیں اس پراڈکٹ کی سیل کا کوئی اندازہ نہیں ہوتاکہ وہ کتنی مقدار میں فروخت ہو سکے گی اور جب اس کی فروخت کا اندازہ غیر یقینی ہوتا ہےتو ہمیں یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ ہمیں کتنا نفع مل سکے گا؟یا ہم اپنے خرچے بھی پورے کر سلکیں گے یا نہیں ؟چونکہ ہمارے اخراجات کا بڑا حصہ متعین (Fixed) ہوتا ہےیعنی وہ اخراجات ہمیں ہر صورت اٹھانے ہوتے ہیں،چاہے آگے سیل کم ہو یا زیادہ،مثلاً گودام کی جگہ کرایہ،ملازمین کی تنخواہیں ،گاڑیوں کے اخراجات وغیرہ۔اب چونکہ کسی نیہ کمپنی کے معاہدے میں یہ یقینی نہیں ہوتاکہ اس کی پراڈکٹس کتنی تعداد میں فروخت ہوں گی؟ لہذا ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم اپنے ماہانہ اخراجات بھی پورے کر پائیں گےیا نہیں؟ مثلاً:ہمارے ماہانہ اخراجات(ایک ڈسٹری بیوشن آفس کے) 100,000=روپے اب اگر کمپنی ہمیں ٪5 ڈسکاؤنٹ دیتی ہے تو اس میں محتمل صورتیں یہ ہو سکتی ہیں کہ نمبرشمار سیل (sales) حاصل شدہ نفع (Gross profit) حقیقی اخراجات (Expenses) صافی نفع (Net profit) آخری نتیجہ 1 000،000،2 100،000 100،000 00 برابرسرابر 2 3،000،000 150،000 100،000 50،000 ڈسٹری بیوٹر کو نفع 3 1،000،000 50،000 100،000 50،000- ڈسٹری بیوٹر کو نقصان مندرجہ بالا مثال سے واضح ہو رہا ہےکہ ڈسٹری بیوٹر کے اخراجات برار رہنے کے باوجوداس کی سیل زیادہ ہونے سے اس کے نفع یا نقصان کا فیصلہ ہوتا ہے۔چونکہ ہم عام دکاندار کی طرح اپنی پراڈکٹ بیچنےمیں آزاد نہیں ہوتے،بلکہ ہم پر کمپنی کی طرف سے ایک مخصوص علاقے،ایک مخصوص قیمت وغیرہ کی پابندیاں ہوتی ہیں اور ہم کمپنی کی پراڈکٹس کی ہر دکان پر ترسیل کا نظام بہتر بنانے پر(معاہدے کی رو سے) پابند ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہر حال ہمیں اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور ہم ان میں اپنی مرضی سےتبدیلی نہیں کر سکتےاس لیے ہمارے لیے نقصان والی صورت قابل قبول نہیں ہوتی اور ہم اس طرح کی غیر یقینی صورتحال میں ڈسٹری بیوشن نہیں کر سکتے۔ اب اس مسئلے ک ایک حل تو یہ ہے کہ کمپنی ہمارا ڈسکاؤنٹ اس حد تک بڑھاےکہ ہمیں نقصان کا احتمال نہ رہے،لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کمپنی اس پر آمادہ نہیں ہوتی کہ وہ ایک غیر یقینی صورتحال کی وجہ سےہمارے ڈسکؤنٹ کی فیصد اس حد تک بڑھ جائے،کیونکہ ایسی صورت میں اگر سیل زیادہ ہوگئی تو ہمیں نفع بہت زیادہ مل جائےگاجو کہ کمپنی کے لیے قابل قبول نہ ہوگامثلاً اگر ڈسکاؤنٹ ٪10 کر لیا تو گزشتہ مثال میں کچھ اس طرح سے تبدیلی آئے گی نمبرشمار سیل (sales) حاصل شدہ نفع (Gross profit) حقیقی اخراجات (Expenses) اضافی نفع (Net profit) 1 000،000،2 200،000 100،000 100،000+ 2 3،000،000 300،000 100،000 200،000+ 3 1،000،000 100،000 100،000 برابرسرابر لہذا مندرجہ بالا غیر یقینی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئےکمپنی اور ڈسٹری بیوٹر ایک ایسافارمولا وضع کرتے ہیں جس میں ڈسٹری بیوٹر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کمپنی کی مصنوعات خرید کر دکانوں پر بیچےاور ڈسٹری بیوٹر کو اپنے اخراجات نکالنے کے بعد ایک طے شدہ نفع بچ جائے(مثلاً٪3) یہ صورت کمپنی اور ڈسٹری بیوٹر دونوں کے لیے قابل قبول ہے۔اس طریقہ کار کو "Cost+" کا فارمولا کہتے ہیں(یعنی ڈسٹری بیوٹر کو ڈسٹری بیوشن پر آنے والے اخراجات کے اوپرمتعین مارجن ملے گا) اس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ڈسٹری بیوٹر کو اپنے تمام طے شدہ اخرجات بھی مل جائیں اور اس سے اوپرطے شدہ فیصدی نفع بھی مل جائے۔ اس کے لیے طریقہ یہ طے ہوتا ہے: “Cost+ “کا فارمولا کمپنی اور ڈسٹری بیوٹر نے باہمی اتفاق سے اندازہ لگایا کہ فلاں فلاں مدات میں ڈسٹری بیوٹر کے متعین ماہانہ اخراجات مثلاً 150،000 روپے ہیں،لہذا اگر ماہانہ سیل اندازاً 1،500،000 ہو تو اخراجات اس کا ٪10 بنیں گے۔پھر یہ طے کیا کہ ڈسٹری بیوٹر کا اپنا نفع مثلاً ٪3 ہوناا چاہیےاس طرح 10+3=13% ہو گیا۔ اس بنا پر یہ طے ہواکہ کمپنی ڈسٹری بیوٹر کو جو مال بیچے گی وہ ٪13 ڈسکاؤنٹ پر بیچے گی۔چنانچہ جب ڈسٹری بیوٹر آگے یہ مال بیچ کر ٪13 نفع حاصل کر لےگا تو اس میں 150،000 اخراجات نکال کر 45،000 اس کو بچ جائیں گے ،لیکن اگر مال کم بکا اور ڈسٹری بیوٹر کو 150،000 اخراجات وصول نہ ہو سکے اور نہ ہی اپنا نفع ملاتو کمپنی اس کی تلافی کر دے گی او ر اگر مال زیادہ بک گیا اور اخراجات نکالنے کےبعد ڈسٹری بیوٹر کو ٪3 سے زیادہ بچ گیا تو وہ کمپنی کو واپس کرے گا۔ درج ذیل مثال کو دیکھئے نمبر شمار خرید کردہ مال Stock Value ڈسکاؤنٹ ٪13 کے بعدقیمت خرید Discounted price ڈسٹری بیوٹر کی فروخت Sales حاصل شدہ نفع Gross profit منہا:ڈسٹری بیوشن کا مارجن ٪3 منہا:خرچے (150،000) ڈسٹری بیوٹر کمپنی سے وصول کرےگا: 1 2،000،000 1،740،000 1،100،000 143،000 110،000 40،000- 40،000 2 2،000،000 1،740،000 1،200،000 156،000 120،000 30،000- 30،000 3 2،000،000 1،740،000 1،700،000 221،000 170،000 20،000 20،000- 6،000،000 5،220،000 4،000،000 520،000 400،000 50،000- 50،000 اس صورت میں تین ماہ کے بعد حساب کرنے کے نتیجے میں پتہ چلا کہ ڈسٹری بیوٹر کمپنی سے 50،000 روپے وصول کرے گا۔اس طرح اسے اپنے تمام اخراجات کے ساتھ ساتھ طے شدہ ٪3 نفع بھی مل جائے گا۔ اس کے برخلاف اگر مال کی فروخت کی صورتحال کچھ تبدیل ہو تو یہ نتیجہ مختلف آئے گا،مثلاً درج ذیل نقشہ دیکھئے: نمبر شمار خرید کردہ مال Stock Value ڈسکاؤنٹ ٪13 کے بعدقیمت خرید Discounted price ڈسٹری بیوٹر کی فروخت Sales حاصل شدہ نفع Gross profit منہا:ڈسٹری بیوشن کا مارجن ٪3 منہا:خرچے (150،000) ڈسٹری بیوٹر کمپنی سے وصول کرےگا: 1 2،000،000 1،740،000 1،400،000 182،000 140،000 10،000- 10،000 2 2،000،000 1،740،000 1،500،000 195،000 150،000 0 0 3 2،000،000 1،740،000 2،000،000 260،000 200،000 50،000 20،000- 6،000،000 5،220،000 49،000،000 637،000 490،000 40،000 40،000- اس مال میں چونکہ ڈسٹری بیوٹر کی سیل زیادہ ہوئی ہیں اس لیے اسے اپنے اخراجات اور اپنا ٪3 نکالنے کے باوجود بھی کچھ مزید بچت ہوگئی ،لہذا وہ 40،000 روپے کمپنی کو واپس کر ےگا۔ اوپر مندرجہ بالا حساب ہر تین ماہ بعد لگایا جائےگااور کمپنی اور ڈسٹری بیوٹراپنا گذشتہ تین ماہ کا لین دین اس طرح برابر کر لیں گے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ کار جائز ہے؟ اس میں شرعی اشکال یہ ہےکہ جب ٪13 ڈسکاؤنٹ پر مال بیچ دیا اور پھر بعد میں یہ امکان ہوا کہ کچھ رقم یا تو مزید ملے گی یا اس میں سے بھی واپس جائے گی تو اس میں کچھ غرر کا پہلو معلوم ہوتا ہے،اگر چہ اس میں فارمولا اتنا واضح ہے کہ اس میں نزاع یا جھگڑے کا خطرہ نہیں۔ اگر اس میں صرف کمپنی کی طرف سے اخراجات دینے کا یکطرفہ وعدہ ہو تو یہ تو تبرع میں داخل ہو سکتا ہے،لیکن ڈسٹری بیوٹر کی طرف سے بھی واپسی کا معاہدہ در اصل انوائس میں دیئے گئے ڈسکاؤنٹ کی واپسی معلوم ہوتی ہےجو کہ قیمت میں غرر کا پہلو پیدا کر رہی ہےاور عملی مشکل یہ ہے کہ صرف ایک پارٹی کی جانب سےیکطرفہ وعدہ پر دونوں پارٹیوں کی رضا مندی نہیں ہو سکتی،بلکہ دونوں طرف لین دین کا وزن برابر رکھنا پڑتا ہے۔ اگر جائز نہ ہو تو پھر اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خرید وفروخت کے معاملات میں معاملے کے وقت قیمت کو حتمی طور پر طے کرنا ضروری ہے،اس کے بغیر معاملہ فاسد بن جاتا ہےکیونکہ یہ جہالت اپنی نوعیت کے لحاظ سے نزاع کا سبب بن سکتی ہے ،اگر چہ فریقین کے درمیان ایک خاص تنا ظر پائے جانے کی وجہ سے نزاع کا سبب نہ بنے ،لہذا معاملہ کرتے وقت ایک ہی قیمت طے کرنا ضروری ہے۔تاہم سوال میں ذکر کردہ مجبوری کی بنا پر اس بات کی گنجائش ہے کہ فریقین الگ سے ایک معاہدہ نامہ پردستخط کر لیں جس میں یہ بات ہو کہ اگر سیل متوقع (مطلوب) مقدار سے کم ہوئی تو سیلر قیمت فروخت میں (اتنی فیصد)کمی کرے گا۔پھر تین ماہ بعد حقیقی صورتحال واضح ہونے پر اس الگ معاہدہ نامہ کے مطابق فریقین دوبارہ قیمت پر نظر ثانی کر لیں۔اس معاہدے کی رو سےبعد میں قیمت میں جو کمی ہوگی یہ تبرع نہیں بلکہ "حط فی الثمن "اور" زیادۃ فی الثمن "کے اصول کے تحت اصل معاملے کا حصہ بنے گیاور "المواعید قد تکون لازمۃ لحاجۃ الناس " کے اصول کے تحت اس وعدہ کے ایفاء کی حیثیت بھی لازمی ہوگی۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:(و) صح (الحطمنه) ولوبعدهلاكالمبيعوقبضالثمن (والزيادة) والحط (يلتحقانبأصلالعقد)بالاستناد. وكذالوزادفيالثمنعرضافهلكقبلتسليمهانفسخالعقدبقدرهقنية (ولايشترطللزيادةهناقيامالمبيع)فتصحبعدهلاكهبخلافهفيالثمنكمامر. قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله: )بالاستناد) وهوأنيثبتأولافيالحال،ثميستندإلىوقتالعقد،ولهذالايثبتالزيادةفيصورةالهلاككمامر؛لأنثبوتهفيالحالمتعذرلانتفاءالمحلفتعذراستناده. قوله:)وصحالحطمنه) أيمنالثمنوكذامنرأسمالالسلموالمسلمفيه. قوله:)انفسخالعقدبقدره) فلواشترىبمائةوتقابضا،ثمزادالمشتريعرضاقيمتهخمسونوهلكالعرضقبلالتسليمينفسخالعقدفيثلثهبحرعنالقنية،ووجهالانفساخأنالعرضمبيعوإنجعلثمناوهلاكالمبيعقبلالقبضيوجبالانفساخفافهم. (الدرالمختارمع ردالمحتار:5/ 154) و فی المحيطالبرهاني : نوعآخرفيالحطوالإبراءعنالثمنوفيهبةالثمنمنالمشتري حطالثمنصحيحويلتحقبأصلالعقدعندناكالزيادة،غيرأنبينالحطوالزيادةفرقمنوجهين: أحدهما: أنالحطصحيحسواءبقيالمبيعمحلاًللمقابلةأولميبق،بخلافالزيادةعلىالرواية؛لأنالحطإخراجماتناولهولهالحطمنأنيكونثمناًللحالوتستندإلىحالكمالالعدميشترطلهقيامالثمنلاقيامالبيع، (المحیط البرھانی:6/ 579) يجوزللمشتريالحطمنالمبيع،ويجوزللبائعالحطمنالثمن،إذاقبلالطرفالآخرفيمجلسالحط،فلوحطالمشتريأوالبائعبعدالقبضكانللآخرحقالاستردادللمحطوط .ويستويأنيكونالحطبعدالتقابضأوقبله،فلوحطالمشتريأوالبائعولايشترطلجوازحطالبائعمنالثمنأنيكونالمبيعقائما؛لأنالحطإسقاط،ولايلزمأنيكونفيمقابلةشيء . أمافيحطالمشتريبعضالمبيععنالبائع،فيشترطأنيكونالمبيعديناثابتافيالذمةليقبلالحط . أمالوكانعينامعينةفإنهلايصحالحطمنالمبيعحينئذ؛لأنالأعيانلاتقبلالإسقاط (الموسوعةالفقهيةالكويتية:9/ 30) قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:وأطلقفيالحطمنالثمنفشملماإذاكانقبلقبضهأوبعدهفإذاحطعنهبعدماأوفاهالثمنأوأبرأهفقالفيالذخيرةلوذهببعضالثمنمنالمشتريقبلالقبضأوأبرأهعنالقبضفهوحط،وإنكانبعدالقبضثمحطالبعضأووهبهصح،ووجبعلىالبائعمثلذلكللمشتري (البحرالرائق:6/ 131)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب