کیا فرماتے ہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زمین بیچنے والا بروکر ایک گاہک کے ساتھ زمین بیچنے کی بات کررہا تھا، گاہک نے بروکر کو کچھ روپے ایڈوانس دیے۔ اس کے باوجود بھی بروکر نے وہ زمین بیچ دی۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں بروکر اس زمین کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ بیچ سکتا تھا؟
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگر اس شخص نے بروکرکو بھاؤ تاؤ کے طور پرروپیہ دیے تھے، معاملہ بیع ابھی طے نہیں ہوا تھا تو یہ بیع منعقد نہیں ہوئی اور بروکرکا اس زمین کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کرنا درست ہے۔ البتہ بروکر کو وعدہ خلافی کرنے کا گناہ ہوا ہے جس کے لیے توبہ و استغفار لازمی ہے، نیز اس شخص کی جو دل آزاری ہوئی ہے اس کے لیے معافی لینا بھی ضروری ہے۔اگر بیع مکمل ہوچکی تھی تو پھر بروکر کو کسی دوسرے کے ہاتھ بیچنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس صورت میں دوسرے گاہک کو بیچنا شرعا موقوف ہے، اگر پہلا گاہک اس کی اجازت دے تو تب وہ نافذ ہوگا۔ ورنہ اگر وہ اس کو کینسل کرنا چاہے تو شرعاً اس کو یہ اختیار حاصل ہے۔
حوالہ جات
"(وما لم يقبل بطل الإيجاب إن رجع الموجب) قبل القبول (أو قام أحدهما) وإن لم يذهب (عن مجلسه) على الراجح نهر وابن الكمال… (وإذا وجدا لزم البيع) بلا خيار إلا لعيب أو رؤية"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/527 ط:دار الفکر بیروت)
"قال: (فإذا وجد الإيجاب والقبول لزمهما البيع بلا خيار مجلس) لأن العقد تم بالإيجاب والقبول لوجود ركنه وشرائطه، فخيار أحدهما الفسخ إضرار بالآخر لما فيه من إبطال حقه، والنص ينفيه؛ وما روي من الحديث محمول على خيار القبول، هكذا قاله النخعي لأن قوله " المتبايعان " يقتضي حالة المباشرة، وقوله: " ما لم يتفرقا " أي بالأقوال؛ لأنه يحتمله، فيحمل عليه توفيقا."
(الاختيار لتعليل المختار2/5 ط:مطبعۃ الحلبی)
"قال: (وإذا أوجب أحدهما البيع فالآخر إن شاء قبل وإن شاء رد) لأنه مخير غير مجبر فيختار أيهما شاء، وهذا خيار القبول، ويمتد في المجلس للحاجة إلى التفكر والتروي والمجلس جامع للمتفرقات، ويبطل بما يبطل به خيار المخيرة لأنه يدل على الإعراض، وللموجب الرجوع لعدم إبطال حق الغير، وليس للمشتري القبول في البعض؛ لأنه تفريق الصفقة وأنه ضرر بالبائع، فإن من عادة التجار ضم الرديء إلى الجيد في البيع لترويج الرديء، فلو صح التفريق يزول الجيد عن ملكه فيبقى الرديء فيتضرر بذلك، وكذلك المشتري يرغب في الجميع، فإذا فرق البائع الصفقة عليه يتضرر."
(الاختيار لتعليل المختار2/4 ط:مطبعۃ الحلبی)
"(وقف بيع مال الغير) لو الغير بالغا عاقلا، فلو صغيرا أو مجنونا لم ينعقد أصلا كما في الزواهر معزيا للحاوي…(قوله: وقف بيع مال الغير) أي على الإجازة على ما بيناه."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/107 ط:دار الفکر-بیروت)
" فضولي باع مال غيره فبلغه فسكت متأملا فقال: ثالث: هل أذنت لي في الإجازة؟ فقال: نعم فأجازه ينفذ، ولو حرك رأسه بنعم فلا؛ لأن تحريك الرأس في حق الناطق لا يعتبر"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/511 ط:دار الفکر-بیروت)