021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاروباری اداروں میں خواتین کی ملازمت کی مختلف صورتوں کا حکم
57994جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

فی زمانہ مختلف شعبوں اور تجارتی اداروں میں خواتین کام کر رہی ہیں ۔اسی حوالے سے ایک سپر اسٹور میں درج ذیل کاموں کے لیے خواتین کو رکھنے کے بارے میں شرعی حکم درکار ہے: 1۔اسٹور میں خاص خواتین سے متعلق حصے مثلاً انڈر گارمنٹس سیکشن (جہاں مردوں کی آمد ممنوع ہو) میں خواتین سیلز پرسن کو رکھنا۔ 2۔ایسے سیکشن جہاں زیادہ تر گاہک خواتین ہوں (البتہ مردوں کی آمد میں ممنوع بھی نہ ہو) مثلاً کاسمیٹکس، شیمپو،کریمز ،جیولری ،لیڈیز گارمنٹس وغیرہ حصوں میں کسٹمرز سے ڈیلنگ کے لیے خواتین کو ملازم رکھنا ۔ 3۔عام استعمال کی مصنوعات جن کے گاہک مرد وخواتین دونوں ہی ہوتے ہیں (مثلاًصابن ،سرف،مشروبات گھی ،تیل ،چائے کی پتی وغیرہ)ان حصوں میں کسٹمرز سے ڈیلنگ اور اس کو مطمئن کرنے کے لیے خاتون کو ملازم مقرر کرنا۔ 4۔ایسا بھی معمول ہے کہ مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر، تعارف اور زیادہ سیل کرنے کے لیے اسٹور کی اجازت سے خاتون ملازم کو مقرر کرتی ہیں جو کسٹمرز(مرد وعورت)سے ڈیل کرتی ہیں۔اس معاملے میں اسٹور مالک کے لیے کیا احکامات ہوں گے؟ 5۔"کسٹمرسروس"کے لیے خاتون کو ملازم رکھنا(یعنی کسٹمرز کی شکایات سننے ،ان کو مطمئن کرنے،کسٹمرز کی طرف سے سامان کی تبدیلی یا واپسی کے لیے)۔کسٹمرز میں مرد وخواتین دونوں ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ نمبر 1 تا 5 میں مذکور خواتین زیادہ سے زیادہ اسکارف میں ہوسکتی ہیں ۔حجاب یعنی چہرے کے پردے کے ساتھ کسٹمر ڈیلنگ کے کام کو انجام دینا معروف نہیں اور نہ ہی اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ان مواقع میں خواتین کو استعمال کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاتون ملازم مرد وعورت دونوں کو باآسانی ڈیل کر لیتی ہے جبکہ مرد اسٹاف سے خواتین کسٹمرز زیادہ کھل کر بات نہیں کرتیں جس سے سیل اور مارکیٹنگ کے مقاصد مکمل طور پر حاصل نہیں ہوتے۔ 6۔آفس کے ایسے کاموں کے لیے خاتون کو ملازم رکھنا جہاں کسٹمرز سے واسطہ نہ پڑے البتہ آفس کے ملازمین اور متعلقہ افراد سے رابطہ رہے مثلاًCCTV کیمرے کے ذریعے اسٹور کی نگرانی یا اکاؤنٹنگ اور ڈیٹا انٹری وغیرہ کا کام جس میں خاتون اسٹاف کی سیٹ بھی اسی کمرے میں ہوتی ہے، جہاں باقی سب اسٹاف ممبرز ہوتے ہیں باقاعدہ الگ کمرہ دستیاب نہیں ہوتا۔اس کا کیا حکم ہے؟اسکارف یا چہرے کا پردہ؟ یا ان دونوں کے بغیر رہنے کا حکم؟نیز اسٹور کے مالک کی ذمہ داری کس حد تک ہے؟ 7۔اسی طرح اپنی مصنوعات یا اسٹور کے اشتہار اور تعارف کے لیے محلوں میں اپنا اسٹاف بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ گھر گھر جاکر کمپنی کا تعارف کروائے۔اس کام کے لیے عموماً دو افراد کی ٹیم ہوتی ہے ایک مرد اور ایک عورت تاکہ مردوں سے مرد بات کریں اور عورت سے عورت۔ اس صورت کا کیا حکم ہوگا؟ یعنی سوال یہ ہے کہ یہ دونوں ملازم تو ڈیوٹی کے دوران ساتھ ساتھ رہیں گے تو اس کے بارے میں کیا شرعی ہدایات اور حدود ہیں؟ جبکہ اس کی ضرورت امرِ واقعی ہےجیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہاء کی عبارات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں عورت کے لیے کسبِ معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔چنانچہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں :"۔۔۔البتہ کوئی عورت ایسی ہے جس کا نہ تو شوہر ہے نہ باپ ہے اور نہ کوئی دوسرا ایسا رشتہ دار ہے جو اس کی معاشی کفالت کرسکے اور نہ خود اس عورت کے پاس اتنا زیادہ مال ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے اس صورت میں اس عورت کے لیے بقدرِ ضرورت کسب ِ معاش کے لیے شرعی پردے کی پابندی کے ساتھ گھر سے نکلنا جائز ہے ۔۔۔"۔ (مغربی ممالک کے چند جدید فقہی مسائل اور ان کاحل،ص:12) مذکورہ بالا اصول سے خواتین کے لیے ملازمت کی غرض سے نکلنے کی حدود واضح ہوئیں ،باقی آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ: (2،1)اگر آپ خواتین سے شرعی پردہ کی شرط پر اس حصے میں خدمات انجام دینے کا معاہدہ کریں تو اس کی گنجائش ہے۔ (3)یہاں فتنے کاخوف زیادہ ہے لہٰذا یہاں مرد حضرات کو ملازم رکھا جائے۔رہی بات کسٹمر کو اچھی طرح ڈیل اور مطمئن کرنے کی تواس کے لیے یہ انتظام کیا جاسکتاہے کہ ملازمین کو پہلے سے ٹریننگ کروائی جائے،تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔ (4)کمپنی مالکان کو مطمئن کیا جائے کہ ہم آپ کے اہداف مردوں کے ذریعے مکمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے،اس کا طریقہ کار یہ ہو کہ مردوں کو ان تمام وسائل اور تربیت سے آراستہ کرنے کی پوری کوشش کی جائے جس کے ذریعے کمپنی اور اسٹور مالکان کے مطلوبہ جائز اہداف حاصل ہوسکیں۔ (5)یہاں خاتون ملازمہ کے بجائے مرد کو بھی رکھا جاسکتا ہے،البتہ مالکان کی یہ بات بھی درست ہے کہ مرد جلدی غصہ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ مرد ملازمین کو متعلقہ کام کی ٹریننگ دی جائے تاکہ وہ اچھے طریقے سے شکایات سنیں اور گاہکوں کے مسائل کو حل کریں۔لہٰذا یہاں عام حالات میں جبکہ کوئی اور مجبوری نہ ہو، خاتون ملازمہ کو رکھنے کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔ (6) جس خاتون کے لیے کسبِ معاش کے لیے شرعی پردےکی پابندی کے ساتھ گھر سے نکلنا جائز ہے اسے اس خاص حصے میں ملازم رکھنا جائز ہوگا۔البتہ کوشش کی جائے کہ خواتین کے اسٹاف کو ایک طرف الگ سے کمرہ مہیا کردیا جائے،جہاں مرد حضرات کی آمد و رفت نہ ہو تاکہ مکمل طور پر فتنے سے حفاظت ہوسکے،اس لیے کہ یہاں فتنے کا اندیشہ اگرچہ کم ہے مگر مرد حضرات سے اختلاط کی وجہ سے بے تکلفی ہوجاتی ہے جو بالآخر فتنے کا سبب بنتی ہے۔ (7) موجودہ حالات کے تناظر میں ایک نامحرم مرد و عورت کو مارکیٹنگ کے لیے ایک ساتھ بھیجنے میں فتنے کا اندیشہ یقینی ہے۔اس لیے اس صورت کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اس مقصد کے لیے خواتین وحضرات کو الگ الگ جماعتوں میں بھیجنے کی صورت اختیار کی جاسکتی ہے،وہ بھی تب جبکہ خواتین مکمل پردے میں باہر نکلیں ،کام کریں اور شام کو اپنے گھر واپس لوٹ جایا کریں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 464) (قوله في سفر) هو ثلاثة أيام ولياليها فيباح لها الخروج إلى ما دونه لحاجة بغير محرم بحر، وروي عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهة خروجها وحدها مسيرة يوم واحد، وينبغي أن يكون الفتوى عليه لفساد الزمان شرح اللباب ويؤيده حديث الصحيحين «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها» وفي لفظ لمسلم «مسيرة ليلة» وفي لفظ «يوم» " لكن قال في الفتح: ثم إذا كان المذهب الأول فليس للزوج منعها إذا كان بينها وبين مكة أقل من ثلاثة أيام (قوله قولان) هما مبنيان على أن وجود الزوج أو المحرم شرط وجوب أم شرط وجوب أداء والذي اختاره في الفتح أنه مع الصحة وأمن الطريق شرط وجوب الأداء فيجب الإيصاء إن منع المرض، وخوف الطريق أو لم يوجد زوج، ولا محرم، ويجب عليها التزوج عند فقد المحرم، وعلى الأول لا يجب شيء من ذلك كما في البحر وفي النهر وصحح الأول في البدائع ورجح الثاني في النهاية تبعا لقاضي خان واختاره في الفتح.قلت: لكن جزم في اللباب بأنه لا يجب عليها التزوج مع أنه مشى على جعل المحرم أو الزوج شرط أداء ورجح هذا في الجوهرة وابن أمير حاج في المناسك كما قاله المصنف في منحه قال: ووجهه أنه لا يحصل غرضها بالتزوج لأن الزوج له أن يمتنع من الخروج معها، بعد أن يملكها، ولا تقدر على الخلاص منه وربما لا يوافقها فتتضرر منه بخلاف المحرم، فإنه إن وافقها أنفقت عليه وإن امتنع أمسكت نفقتها وتركت الحج اهـ فافهم. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 146) (قوله فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج إلخ (قوله والمعتمد إلخ) عبارته فيما سيجيء في النفقة: وله منعها من الحمام إلا النفساء وإن جاز بلا تزين وكشف عورة أحد. قال الباقاني: وعليه فلا خلاف في منعهن للعلم بكشف بعضهن، وكذا في الشرنبلالية معزيا للكمال اهـ وليس عدم التزيين خاصا بالحمام لما قاله الكمال. وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم…(قوله مؤجلا ومعجلا) تفسير لقوله كله والنصب بتقدير يعني. مطلب في السفر بالزوجة قال في البحر عن شرح المجمع: وأفتى بعضهم بأنه إذا أوفاها المعجل والمؤجل وكان مأمونا سافر بها وإلا لا لأن التأجيل إنما يثبت بحكم العرف، فلعلها إنما رضيت بالتأجيل لأجل إمساكها في بلدها، أما إذا أخرجها إلى دار الغربة فلا إلخ (قوله لكن في النهر إلخ) ومثله في البحر حيث ذكر أولا أنه إذا أوفاها المعجل فالفتوى على أنه يسافر بها كما في جامع الفصولين. وفي الخانية والولوالجية أنه ظاهر الرواية، ثم ذكر عن الفقيهين أبي القاسم الصفار وأبي الليث أنه ليس له السفر مطلقا بلا رضاها لفساد الزمان لأنها لا تأمن على نفسها في منزلها فكيف إذا خرجت وأنه صرح في المختار بأن عليه الفتوى. وفي المحيط أنه المختار. وفي الولوالجية أن جواب ظاهر الرواية كان في زمانهم، أما في زماننا فلا، وقال: فجعله من باب اختلاف الحكم باختلاف العصر والزمان كما قالوا في مسألة الاستئجار على الطاعات، ثم ذكر ما في المتن عن شرح المجمع لمصنفه، ثم قال: فقد اختلف الإفتاء والأحسن الإفتاء بقول الفقيهين من غير تفصيل واختاره كثير من مشايخنا كما في الكافي، وعليه عمل القضاء في زماننا كما في أنفع الوسائل. اهـ. المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 466) نوع آخر في بيان ما يلزمها المعتدة في عدتهاالمعتدة من الطلاق لا تخرج من بيتها ليلاً ولا نهاراً، أما المتوفى عنها زوجها، فلا بأس بأن تخرج بالنهار لحاجتها، ولا تبيت في غير منزلها.والفرق: أن نفقة المتوفى عنها زوجها عليها، وعسى لا تجد من يسوي أمرها، فتحتاج إلى الخروج لتسوية أمر معيشتها غير أن أمر المعيشة عادة تسوى بالنهار دون الليالي، فأبيح لها الخروج بالنهار دون الليالي.وأما المطلقة فنفقتها في مال الزوج فلا تحتاج إلى الخروج حتى لو كانت مختلف على نفقة لها قيل: يباح لها الخروج نهاراً لمعيشتها كالمتوفى عنها زوجها، وقيل: لا يباح لها الخروج؛ لأنها هي التي اختارت إبطال النفقة فلا يصح هذا الاختيار في إبطال حق الله تعالى، وبهذا يفتي الصدر الشهيد رحمه الله، وهذا بمنزلة ما لو اختارت على أن لا سكنى لها فإنه تبطل مؤنه السكنى عن الزوج ويلزمها أن تكون في بيت الزوج، فأما أن يحل لها خروج فلا. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 603) قال: وينبغي عدم تخصيص الغزل، بل له أن يمنعها من الأعمال كلها المقتضية للكسب؛ لأنها مستغنية عنه لوجوب كفايتها عليه وكذا من العمل تبرعا لأجنبي بالأولى. اهـ وقوله بالأولى ينافي قول الشارح ولو تبرعا لاقتضاء لو الوصلية كون غير التبرع أولى وهو غير صحيح كذا قيل. وقد يجاب بأن ما كان غير تبرع بل بالأجرة قد يستدعي خروجها لمطالبة الأجنبي بالأجرة تأمل. قلت: ثم إن قولهم له منعها من الغزل يشمل غزلها لنفسها، فإن كانت العلة فيه السهر والتعب المنقص لجمالها فله منعها عما يؤدي إلى ذلك لا ما دونه وإن كانت العلة استغناءها عن الكسب كما مر، ففيه أنها قد تحتاج إلى ما لا يلزم الزوج شراؤه لها، والذي ينبغي تحريره أن يكون له منعها عن كل عمل يؤدي إلى تنقيص حقه أو ضرره أو إلى خروجها من بيته أما العمل الذي لا ضرر له فيه فلا وجه لمنعها عنه خصوصا في حال غيبته من بيته، فإن ترك المرأة بلا عمل في بيتها يؤدي إلى وساوس النفس والشيطان أو الاشتغال بما لا يعني مع الأجانب والجيران. البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 213) وقالوا هنا له أن يمنع امرأته من الغزل ولا تتطوع للصلاة والصوم بغير إذن الزوج، كذا في الظهيرية وينبغي عدم تخصيص الغزل، بل له أن يمنعها من الأعمال كلها المقتضية للكسب؛ لأنها مستغنية عنه لوجوب كفايتها عليه، وكذا من العمل تبرعا لأجنبي بالأولى وفي فتح القدير حيث أبحنا لها الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية لنظر الرجال والاستمالة قال الله تعالى {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى} [الأحزاب: 33] وقول الفقيه وتمنع من الحمام خالفه قاضي خان قال في فصل الحمام في فتاويه حيث قال دخول الحمام مشروع للرجال والنساء جميعا خلافا لما قاله بعض الناس إلى آخره.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب