مختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان
سوال
ہمارےا دارے کا یہ بھی قانون ہے کہ ہر ماہ ہر ہر ملازم کی تنخواہ سے 50 ڈالر اور ادارہ اپنی طرف سے 100 ڈالر ملاکر 150 ڈالر اکاونٹ میں رکھتے ہیں ، اور تین سال تک نکالنے کی اجازت نہیں ، 3 سال بعد وہ سب ملا کر ملازم کو دی جاتی ہے ۔ یادرہے کہ مذکورہ کٹوتی بھی ملازم کی مرضی کے بغیر کی جاتی ہے ، ان دونوں سوالوں کا جواب دیجیئے،اللہ تعالی آپ کی عمر میں برکت نصیب فرمائے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکور صورت پراویڈنٹ فنڈ کی ہے،لہذا اس پر کمپنی کی طرف سے ملنے والی اضافی رقم تبرع اور گفٹ کی مد میں ہوگی، سود کا اطلاق اس پر نہیں ہوگا، لہذا اس کا لینا جائز ہے ،اس کو وصول کرکے اپنے استعمال میں لانا درست ہے۔ باقی کمپنی ذمہ داران کا اپنا فعل ہے اس کا گناہ سائل پر نہیں ۔
حوالہ جات
"قال - رحمه الله - (والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)"
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي5/106ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
”أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة"
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي5/106ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
"(المادة 837) تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض."
(مجلة الأحكام العدلية (ص: 162)ط:نور محمد)
": (والأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها؛ لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع، والعقد معاوضة، ومن قضية المعاوضة المساواة، وإذا استوفى المنفعة ثبت الملك في الأجرة لتحقق التسوية وكذا إذا شرط التعجيل، أو عجل من غير شرط ولو استأجر دارا سنة بعبد معين ولم يقبضه المؤجر فأعتقه المستأجر قبل مضي المدة صح عتقه وعليه قيمته ولو أعتقه المؤجر لا يصح؛ لأنه لا يملكه بمجرد العقد ولو قبضه المؤجر فأعتقه نفذ عتقه"
(الجوهرة النيرة على مختصر القدوري1/266 ط:المطبعۃ الخیریۃ)
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم