021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں نقصان کا حکم
58044مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دار الافتاء سے دو افراد م اور دال نے ایک شخص ابو رفیق کو مضاربت پر رقم 27 لاکھ روپے ادا کردیے۔ ہر قسم کے مسائل دار الافتاء سے معلوم کرکے کام کا آغاز کیا ۔کام کی نوعیت اس طرح کی تھی کہ کسی زمین دار سے سالانہ ساٹھ لاکھ روپے پر ایک کیلے کا باغ شدہ حاصل کیا ۔جس کی ہر تین ماہ کے بعد 15 لاکھ روپے قسط ادا کی جاتی رہی ۔درمیانِ سال قدرتی حکومتی نہر جس سے پانی کیلے کے باغات میں آتا تھا ،حکومت نے مرمت کی وجہ سے دو ماہ کے لیے بند کردیا ۔جس سے اوروں کی طرح ہمارا باغ بھی متاثر ہوا اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے دو ماہ تک مطلوبہ پیداوار بند رہی یا برائے نام رہی۔ فریقین م اور دال نے ابو رفیق کو فکر کی توجہ دلائی تو ابو رفیق نے زمیندار سے بات کی ۔زمین دار نے اس بات کی اجازت دیدی کہ تم لوگ میری زمین پر ٹیوب ویل لگوا لو اور میری ہر تین ماہ والی قسط میں سے ٹیوب ویل کا خرچ کاٹ لینا۔ اس جگہ سے فریقین کے درمیان بعد معاملہ ختم ہوجانے کے اختلاف ہو رہا ہے جب زمین دار نے اپنے خرچ پر اجازت دے دی تھی تو ابو رفیق نے ٹیوب ویل لگوا کر پانی کی کمی کیوں پوری نہیں کی تاکہ پیداوار کا سلسلہ جاری رہتا ۔جبکہ ابو رفیق کا موقف یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس رقم نہیں تھی آگے قسطوں کے لیے اور کھاد کیلے کے باغ میں ڈالنے کے لیے میں کیسے کام کرتا؟ جواباً م اور دال کا موقف یہ ہے کہ اتنےاہم مسئلہ کو ابو رفیق نے ہنگامی طور پر اہمیت کیوں نہیں دی؟اس لیے ابو رفیق ہی انِ دو ماہ کا نقصان برداشت کرے کیوں کہ اگر دو ماہ پانی آتا رہتا تو نقصان نہ ہوتا۔ اس لیے کہ فریقین م اور دال نے جتنی رقم ابو رفیق کو دی تھی دو ماہ میں اندازاً کم و بیش" اُتنی ہی رقم "کا نقصان ہے لہٰذا یہ دو ماہ کا نقصان ہمارے ذمہ نہیں بلکہ یہ ابو رفیق کو اس بارے میں نقصان سے بچنے کی صورتحال کو اہمیت نہ دینا اور فائدہ نا اٹھانا اور نا اس بارے میں سر توڑ کوشش نہ کرنا ہے، کیوں کہ اصل رقم کی حفاظت سے استعمال کرنا بھی ابو رفیق کی ذمہ داری تھی ۔شرع روشن میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔ والسلام۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ معاملہ عقد مضاربت ہے۔مضاربت کا عام اصول یہ ہے کہ اگر مضاربت میں مضارِب کی طرف سے تعدّی کے بغیر حقیقی نقصان ہو تو یہ نقصان کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے پورا کیا جاتا ہے،اگر اِس سے بھی متجاوز ہو تو راس المال (سرمایہ) سے پورا کیا جاتا ہے۔،کیوں کہ مضارب امین ہوتا ہے۔البتہ اگر مضارِب کی طرف سے تعدی پائی جائے مثلاً رب المال یعنی سرمایہ دار کی طرف سے لگائی گئی شرط کے مخالف کوئی عمل کیا ہویا اس کے علاوہ کوئی واقعی کوتاہی ثابت ہوجائے(جیسے کہ سائل کے بیان کے مطابق مذکورہ سوال میں ہے) تو ایسی صورت میں مضارِ ب ضامن ہوتا ہے۔ مذکورہ سوال میں بھی سوال میں لکھی تفصیل اور سائل سے فون پر معلوم ہونے والی تفصیل کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں بھی مضارب کی طرف سے اصول کی خلاف ورزی پائی گئی ہے، اس لیے اس کی تعدی کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے وہ اس کا ضامن ہوگا۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 67) قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد. تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 53) قال - رحمه الله - (والمضارب أمين وبالتصرف وكيل وبالربح شريك وبالفساد أجير وبالخلاف غاصب وباشتراط كل الربح له مستقرض وباشتراطه لرب المال مستبضع) يعني بدفع المال إليه على وجه المضاربة يكون أمينا؛ لأنه قبضه بإذن مالكه لا على وجه البدل والوثيقة. مجمع الضمانات (ص: 303) ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه فإذا ربح فهو شريك فيه، وإذا فسدت ظهرت الإجارة حتى استوجب العامل أجر مثله، وإذا خالف كان غاصبا لوجود التعدي منه على مال غيره. مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 322) (وإن خالف) المضارب شرط رب المال (فغاصب) ولو أجاز بعده؛ لوجود التعدي منه على مال غيره فصار غاصبا، فيضمن، وبه قالت الأئمة الثلاثة وأكثر أهل العلم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب