کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک مسلمان جو کاروبار میں برابر کا شریک ہونے کے بعد دوسرے پارٹنر جو کاروبار سنبھال رہا تھا اور پیسے نہیں دے رہا تھا تو اس نے مشترکہ املاک جو اس کے نام پر تھیں وہ بیچ دی۔ اب مدت کے بعد حساب میں کیا رقم لکھی جائیگی ،وہ جو اس کو بیچ کر وصول ہوئی تھی یا زیادہ آج کے مارکیٹ پرائس پر۔ امید ہے قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں گے۔
اضافہ: چچا محمد کے مطابق power of attorney شریک کے پاس تھا ۔گویا اسے بیچنے کی قانونی اجازت تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پوچھے گئے سوال میں چونکہ دوسرے شریک کو بیچنے کا حق قانونی طور پر حاصل تھا ،لہذا دوسرے شریک نے وکیل بن کر مشترکہ املاک بیچ ڈالی۔ لہذا مشترکہ املاک کو بیچنے کے بعد جو (ثمن) رقم حاصل ہوئی ،اسی کو دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر حساب میں لکھا جائیگا۔
حوالہ جات
"قال: "كل عقد جاز أن يعقده الإنسان بنفسه جاز أن يوكل به غيره" لأن الإنسان قد يعجز عن المباشرة بنفسه على اعتبار بعض الأحوال فيحتاج إلى أن يوكل غيره فيكون بسبيل منه دفعا للحاجة. " الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 136)
(المادة 1071) يجوز لأحد الشريكين أن يتصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر لكن لا يجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 206)