021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قادیانیوں کومسجد حوالے کرناجائزنہیں۔
58055جائز و ناجائزامور کا بیانکفار کے ساتھ معاملات کا بیان

سوال

:کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے۔ موضع دوالمیاں چکوال میں ایک مسجد مسلمانوں کے لئے 1860 ٫سے قبل بنائی گئی،مسجد کانام میناروالی مسجد ہے،جومسلمانوں کی عبادت کے لئے وقف کی گئی تھی،اورمسلمان اس مسجد میں پانچ وقت کی نمازبشمول نمازجمعہ وعیدین باقاعدگی سے اداء کرتے تھے،اورتبلیغی اجتماع بھی منعقد ہوتے تھے۔1974 ٫میں قادیانیوں کوغیرمسلم قراردے دیاگیاتوقادیانیوں نے غیرقانونی طورپرمسجد پرزبردستی قبضہ کرلیا،مسلمانوں نے مسجد قادیانیوں سے واگزارکرانے کے لئے عدالت سے رجوع کیا،اسی دوران مورخہ 12/12/2016 ،12 ربیع الاول 1438 ھج کے مبارک دن کے موقع پرقادیانیوں نے مسلمانوں کے میلادالنبی کے مذہبی جلوس پراندھادھند فائرنگ کرکے ایک مسلمان نعیم شفیق کوشہید جبکہ تین مسلمانوں کوزخمی کردیا،جس کامقدمہ مقامی تھانہ میں درج ہوااورپولیس نے قادیانیوں سے سازبازکرکے 68 مسلمانوں کوگرفتارکرکے جیل بھجوادیا،قادیانیوں کے صرف 4 بندے گرفتارکئے گئے جبکہ 3000 نامعلوم مسلمانوں کے خلاف ایف ائی آر کاٹ دی گئی۔انتظامیہ نے حالات کی کشیدگی کے پیش نظر مسجد کوسیل کردیاگیا،جواس وقت تک سیل ہے،اوراس پرپہرہ لگاہواہے۔کسی مسلمان کومسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اس وقت مسلمانوں کے کچھ افراد قادیانیوں کےساتھ مسجد کی بابت ایک معاہدہ طے کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں اورچند مسلمان قادیانیوں کویہ لکھ کردینے کے لئے تیارہوگئے ہیں کہ مسجد قادیانیوں کے حوالے کردی جائے اورانہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قبلہ مفتی صاحب یہاں جوسوالات پیداہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۱۔کیامسلمانوں کی عبادت گاہ کوغیر مسلم قادیانیوں کے حوالے کیاجاسکتاہے؟ ۲۔اگرپہلے سوال کاجواب نفی میں ہے توایسے شخص کے لئے جومسجد وقف للہ کوقادیانی زندیقوں کے حوالے کرے یا ان کےحوالے کرنے کی رضامندی ظاہر کرے یاان کومستقل بنیادوں پرمسجد پرقابض کروانے کے لئے مددیاتعاون کرے،ایسے شخص کے لئے شرعی طورپرکیاحکم نافذہوگا؟ ۳۔کیاایسے شخص کاایمان سلامت رہے گا؟یاوہ مرتد ہوجائے گا؟ ۴۔اگرایساشخص شادی شدہ ہے تواس کی بیوی کاشرعی طورپر کیامقام ہوگا۔کیاوہ اسکے نکاح میں رہے گی یافارغ ہوجائے گی۔ ۵۔ایسے شخص کومرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھنایاپڑھاناشرعی طورپر جائزہوگایانہیں؟کیاایسے شخص کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجاسکتاہے یانہیں؟ ۶۔کیاایسے شخص کی کمائی اس کی مسلمان اولاد کے لئے حلال ہوگی یانہیں؟ ۷۔ایسے شخص کے ساتھ سماجی،معاشی،معاشرتی تعلقات شرعاقائم رکھناجائزہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مسلمانوں کی وقف عبادت گاہ کسی غیرمسلم قادیانی کے حوالے کرناناجائزوحرام ہے،اگرکوئی حوالے کرتاہے تووہ گناہگاربھی ہوگا،اوراس کاایمان بھی خطرے میں ہوگا،کیونکہ مسجد شعائراللہ اورشعائراسلام میں سے ہے،جوصرف اہل اسلام کی عبادت گاہ ہوسکتی ہے،قرآن کریم نے یہ اصول واضح کردیاہےکہ کوئی غیرمسلم، کافرمسجد کی تعمیر وتولیت کااہل نہیں ہوسکتا ،ماکان للمشرکین أن یعمرومساجداللہ ۔۔۔ ۲،۳،۴،۵،۶،۷۔اگراس شخص کی کوششیں اس وجہ سے ہوں کہ وہ قادیانی عقائدکودرست سمجھ کر،اس کی تائیدوترویج میں اپناحصہ ڈالناچاہتا ہوتوایساشخص بے شک مرتد،دائرہ اسلام سے خارج ہے،اس کانکاح بھی ختم ہوگیاہے،ایسے شخص کے ساتھ سماجی،معاشرتی،معاشی کسی قسم کا بھی تعلق رکھنا،اس کے جنازہ میں شریک ہونا،اس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا جائزنہیں، اسی طرح بالغ بیٹوں کاقادیانی والد کی کمائی کھانا جائزنہیں ،بیٹوں پرلازم ہے کہ والد کے ساتھ قطع تعلق کریں، جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائے۔ لیکن اگراس شخص کی یہ کوششیں اس وجہ سے نہ ہوں،بلکہ ذاتی مفاد،کسی کے ساتھ عنادیاکسی اوروجہ سے ہوں توپھرایسے شخص پرکفرکاحکم لگانے میں احتیاط کی جائے گی،تاہم اس عمل کے فسق ہونےاورخلاف شریعت ہونے اورحددرجہ بے غیرتی پرمشتمل ہونے میں کوئی شبہہ نہیں،اس شخص پراس عمل سے توبہ واستغفار،آئندہ کے لئے ایسے اقدامات سے اجتناب لازم ہے،اوراحتیاطاتجدیدایمان ونکاح بھی ضروری ہے۔ اگرایسےشخص سے قطع تعلق کرنے میں اس کی اصلاح کی امیدہوتواس کے ساتھ قطع تعلق بھی کرناچاہئے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ الھود آیت 112: وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ ۔ "تفسير ابن كثير"4 / 354: وقوله: { وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا } قال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: لا تُدهنُوا وقال العوفي، عن ابن عباس: هو الركون إلى الشرك.وقال أبو العالية: لا ترضوا أعمالهم. وقال ابن جُرَيْج، عن ابن عباس: ولا تميلوا إلى الذين ظلموا وهذا القول حسن، أي: لا تستعينوا بالظلمة فتكونوا كأنكم قد رضيتم بباقي صنيعهم، { فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ } أي: ليس لكم من دونه من ولي ينقذكم، ولا ناصر يخلصكم من عذابه. "أحكام القرآن للجصاص " 4 / 379: ولا تركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار،والركون إلى الشيء هو السكون إليه بالأنس والمحبة فاقتضى ذلك النهي عن مجالسة الظالمين ومؤانستهم والإنصات إليهم وهو مثل قوله تعالى فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين۔ "الجامع لأحكام القرآن للقرطبي"9 / 108: قوله تعالى : {إلى الذين ظلموا} قيل : أهل الشرك. وقيل : عامة فيهم وفي العصاة ، على نحو قوله تعالى : {وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا} [الأنعام : 68] الآية. وقد تقدم. وهذا هو الصحيح في معنى الآية ؛ وأنها دالة على هجران أهل الكفر والمعاصي من أهل البدع وغيرهم ؛ فإن صحبتهم كفر أو معصية ؛ إذ الصحبة لا تكون إلا عن مودة ؛ وقد قال حكيم عن المرء لا تسأل وسل عن قرينه ... فكل قرين بالمقارن يقتدی۔ فإن كانت الصحبة عن ضرورة وتقية فقد مضى القول فيها في "آل عمران" و"المائدة". وصحبة الظالم علی التقية مستثناة من النهي بحال الاضطرار. والله أعلم ۔ وقال اللہ تعالی فی سورۃ الممتحنۃ آیت 01 : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ الخ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَاداً فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ} "رد المحتار" 10 / 334: ( ولا ) يصلح ( أن ينكح مرتد أو مرتدة أحدا ) من الناس مطلقا ۔ ( قوله مطلقا ) أي مسلما أو كافرا أو مرتدا وهو تأكيد لما فهم من النكرة في النفي ۔ " الهندية"7 / 2: لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء ، كذا في السراج الوهاج ۔ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده ، كذا في فتح القدير . "البحر الرائق" 5 / 361: أما المرتد فلا يغسل ، ولا يكفن ، وإنما يلقى في حفيرة كالكلب ، ولا يدفع إلى من انتقل إلى دينهم كما في فتح القدير۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب