021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد اور بیٹوں کا مشترکہ کاروبار
58099تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم ! ہم آٹھ بھائی اور چاربہنیں ہیں، جس میں سے الحمد للہ سات بھائی اور تین بہنیں شادی شدہ ہیں۔ میرے والد صاحب نے ایک جنرل اسٹور کھولی اور بیس سال تک اس کو چلا تے رہے، اتنے میں ان کے بچے بڑے ہونا شروع ہوئے تو انھوں نے ان کو دوکان میں بٹھا نا شروع کیا اور وہ دوکان کو چلاتے رہے اور کاروبار چار پانچ دوکانوں تک پھیل گیا ۔اس دوران ہم دو چھوٹے بھی بھائی بھی کچھ عرصہ کے لیے دوکان میں بیٹھے لیکن بعد میں والد صاحب اور بڑے بھائیوں پؑھنے لکھنے کے لیے دوسرےشہر بھیج دیااور بڑے بھائی دوکان کو ہی سنبھالتے رہے اور ان سے منافع بھی لیتے رہے اور بیرون ملک دورے بھی کرتے رہے۔ہم دونوں بھائیوں کی جب پڑھائی جب مکمل ہوئی تو ہم نوکری کے لیے پھر دوسرے شہر چلے گئے اور وہاں ہم کرائے کے مکان میں رہتے رہےاور دیگر 6 بھائی دوکانوں کو سنبھالتے رہے اور والد کے خریدے ہوئے گھروں میں رہتے رہے۔ ہمارے والد کی ملکیت ابھی تقسیم نہیں ہوئی اور کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے بھائی بولتے تھےملکیت سب بھائیوں میں برابرتقسیم ہوگی مگر اب اچانک سے بھائی کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے اور اب ہمارے بھائیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم نے کاروبار کو پھیلایا ہے اور محنت کی ہے ،اس لیے اس میں ہم دو بھائیوں کے علاوہ چھ بھائیوں کا حصہ ہےم کیونکہ ہم دو دوکانوں پر نہیں بیٹھے تھے۔مزید یہ کہ کچھ بھائی والد صاحب پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہم دو کو کاروبار میں سے کچھ حصہ بھی نہ دیا جائے ۔یہ بات بھی واضح رہے کہ دکان میں بیٹھتے وقت بھائیوں کا والد صاحب سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ معاون کے طور پر ہی بیٹھتے رہےہیں۔سب کاروبار کو مشترکہ سمجھا جاتا تھا، اس وقت تمام کاروبار والد صاحب کے نام پر ہے مگر کاروبار چھ بھائی سنبھال رہے ہیں۔ اب آپ حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ اس کاروبا ر میں ہمارا حصہ ہے یا نہیں؟ یا صرف بڑے بھائیوں کا حصہ ہے اور ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں؟ اب والد صاحب اگر زندگی میں تقسیم کرنا چاہے تو کس طرح کریں؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیجیئے۔ جزاکم اللہ سائل: نوید شیخ رابطہ: 03468208988

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

باپ اور بیٹوں کی مشترکہ کمائی کی صورت میں کمائی باپ ہی کی ہوتی ہے اور بیٹوں کی حیثیت محض معاون کی ہوتی ہے،لہذا پوچھے گئے مسئلہ میں کاروبار اور دکانیں والد کی ملکیت ہے۔وہ اس میں کسی قسم کا بھی تصرف کرسکتے ہیں۔اولاد میں سے کسی کو بھی شرعا یہ حق نہیں پہنچتا کہ کہ وہ والد کے تصرفات میں کسی قسم کی رکاوٹ بنے یا اعتراض کرے۔ جب کوئی شخص فوت ہوتاہے تو اس کا مال میراث بنتا ہے اور شریعت کے متعین کردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔زندگی میں جب کوئی شخص کسی کو کچھ دیتا ہے تووہ ہدیہ ہوتا ہے۔لہذاگر والد زندگی میں ہی جائیداد اور دکانوں کو اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو ان کو چاہیے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کو بالکلیہ محروم نہ کریں ۔ اگر وہ اولا د میں سے کسی کو نہ دیں یا دوسروں سے بہت کم دےتو ان کو سمجھائیں کہ اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا ناانصافی ،ظلم اور سخت گناہ ہے۔البتہ جن بیٹوں نے اس کاروبار میں محنت کی ہے ، انہیں ان کی محنت کے حساب سے کچھ زیادہ دینے میں حرج نہیں ۔جس کی جتنی محنت زیادہ ہو اس کا حصہ اس تناسب سے زیادہ رکھا جائے تاکہ بد دلی اور جھگڑے کی کیفیت پیدا نہ ہو۔
حوالہ جات
2586- "حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، ومحمد بن النعمان بن بشير، أنهما حدثاه عن النعمان بن بشير، أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله»، قال: لا، قال [ص:158]: «فارجعه»" وفی روایۃ : فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته۔" صحيح البخاري (3/ 158،157) وفی روایۃ سنن أبي داود : " عن النعمان بن بشير، قال أنحلني: أبي نحلا، قال إسماعيل بن سالم: من بين القوم نحلة غلاما له، قال: فقالت له: أمي عمرة بنت رواحة ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشهده فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأشهده، فذكر ذلك له، فقال له: إني نحلت ابني النعمان نحلا وإن عمرة سألتني أن أشهدك على ذلك، قال: فقال: «ألك ولد سواه؟» قال: قلت: نعم، قال: «فكلهم أعطيت مثل ما أعطيت النعمان؟» قال: لا، قال: فقال: بعض هؤلاء المحدثين، " هذا جور وقال بعضهم: «هذا تلجئة فأشهد على هذا غيري» قال مغيرة: في حديثه «أليس يسرك أن يكونوا لك في البر واللطف سواء» قال: نعم، قال: «فأشهد على هذا غيري» وذكر مجالد في حديثه «إن لهم عليك من الحق أن تعدل بينهم كما أن لك عليهم من الحق أن يبروك» " سنن أبي داود (3/ 292) "الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔۔۔۔۔ وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير۔ " حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325) " ولو اعطی بعض ولدہ شیئاً دون البعض لزیادۃ رشدہ لاباس بہ وان کانا سواء لاینبغی ان یفضل۔" خلاصۃ الفتاوی(4/400) "وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 127) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب