میرا نام سیما سلطانہ ہے،میرے والدین کے کل آٹھ بچے ہیں،پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے،جن میں سے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی والدین کے زندگی میں ہوچکی تھی۔میرے والد صاحب محمد عالمگیر(مرحوم)نے ایک مکان خریدا تھا،اس زمانے میں وہ آبادی لیز نہیں ہوتی تھی۔والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے ایک بھائی(صغیرمتوفی2002ء) کا انتقال ہوگیا اور ایک بھائی اور ایک بہن کی شادی طے پائی۔بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی میں تھی اور والدہ کے بقول انہوں نے میرے لیے کوئی رقم وغیرہ جمع نہیں کی تھی۔لہذا والدہ نے میرے بڑے بھائی اور ایک بہن کو اعتماد میں لے کر وہ مکان میرے نام منتقل کرنے کا کہہ دیا،کیونکہ انہوں نے میرے لیے کچھ سامان اکٹھا نہیں کیا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد والدہ کا انتقال (خدیجہ متوفاۃ 1991ء)ہوگیا اور بڑے بھائی نے وہ مکان میرے نام لیز کروادیا۔اس کے بعد میری شادی ہوگئی اور پھر دو بہنوں (نسیمہ متوفاۃ 2010ء ،شمیم متوفاۃ 2016ء)اور مزید ایک اور بھائی (منیر متوفی 2017ء)کا انتقال ہوگیا۔اس وقت میرے ایک بڑے بھائی اور ہم تین بہنیں حیات ہیں۔
میری خواہش ہے کہ میں اس مکان کو کسی مدرسے یا مسجد کے لیے وقف کردوں۔آیا میری یہ خواہش قرآن وسنت کے رو سے جائز ہے؟(میرے اس خواہش پر میرے بڑے بھائی اور دو بہنیں رضا مند ہیں)۔ میری بڑی بہن نسیمہ سلطانہ(مرحومہ)کے چھ بچے ہیں اور ان کی چاہت ہے کہ ان کو مکان سے کچھ حصہ ملے۔آیا مکان بیچ کے سب کو حصے دینا جائز ہے یا وقف کردینا؟اگر ان کو کچھ حصہ نہ دیا جائے تو کیا گناہ کے زمرے میں تو نہیں آئیگا؟شریعت اور دنیاوی قانون کے لحاظ سے راہنمائی فرمائیں۔
خاندانی فہرست:
والد:سید محمد عالمگیر(مرحوم)
والدہ:خدیجہ خاتون(مرحوم 1991ء)
نسیمہ سلطانہ(مرحومہ2010ء)ــــ2بیٹے،4 بیٹیاں اور شوہر۔
شمیم سلطانہ(مرحومہ2016ء)ــــکوئی اولاد نہیں۔
سید محمد ظہیر(حیات)۔
سلمی سلطانہ(حیات)۔
سید محمد منیر(مرحوم2017ء)ــــکوئی اولاد نہیں۔
صالحہ سلطانہ(حیات)۔
سید محمد صغیر(مرحوم2002ء)ــــکوئی اولاد نہیں۔
سیما سلطانہ(حیات)۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ مکان آپ کے والد مرحوم کا ترکہ ہے،اس کو وقف کرنا جائز نہیں،بلکہ ان کے ورثہ میں تقسیم کرنا واجب ہے،اگر تقسیم نہیں کیا تو گناہ آپ کے ذمہ ہوگا۔آپ اپنا حصہ اور جو بہن بھائی آپ کے ساتھ برضا و رغبت اپنا حصہ وقف کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔مذکورہ مکان ورثہ میں شریعت کے اصولوں کی روشنی میں درج ذیل طریقے کے مطابق تقسیم ہوگی:
اس میں سب سےپہلےعالمگیر(مرحوم) کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالےجائیں گے، اگر یہ اخراجات کسی نےاپنی طرف سے ادا کردیے ہوں تومرحوم کے ترکہ سے یہ اخراجات نہیں نکالے جائیں گے۔ اس کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض واجب الاداء ہو وہ ادا کیا جائے ،اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (1/3)کی حد تک اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو ترکہ بچے وہ فیصدی اعتبار سے درج ذیل طریقے سے تقسیم ہوگا:
# نام فیصدی حصہ # نام فیصدی حصہ
1 ظہیر 35.53% 2 سلمی 17.76%
3 صالحہ 17.76% 4 سیما 17.76%
5 عمران 2.08% 6 ریحان 2.08%
7 ثمینہ 1.04% 8 فرزانہ 1.04%
9 رخسانہ 1.04% 10 شازیہ 1.04%
11 اقبال 2.77%
حوالہ جات
قال الشیخ سراج محمد بن عبد الرشید السجاوندی رحمہ اللہ تعالی:أما للزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عندعدم الولد وولد الابن وإن سفل،والثمن مع الولد أو ولد الابن وإن سفل.وأما لبنات الصلب فأۥحوال ثلاث:النصف للواحدۃ،والثلثان للاثنتین فصاعدۃ،ومع الابن للذّکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن ." (السراجی فی المیراث:ص19،مکتبۃ البشری)
قال العلّامةالحصكفي رحمه الله:"( يبدأ من تركة الميت.. ( بتجهيزه ) يعم التكفين ( من غير تقتير ولا تبذير ) .. ( ثم ) تقدم ( ديونه التي لها مطالب من جهة العباد ) .. ( ثم ) تقدم ( وصيته ) .. ( من ثلث ما بقي ) بعد تجهيزه وديونه .. ( يقسم الباقي ) بعد ذلك ( بين ورثته)."
وقال أیضا: "ثم العصبات بأنفسھم أربعۃ أصناف:جزء المیّت،ثم أصلہ،ثم جزء أبیہ،ثم جزء جدّہ(ویقدّم الأقرب فالأقرب منھم)بھذا الترتیب فیقدم جزء المیت(کالابن ثم ابنہ وإن سفل).....(ویصیر عصبۃ بغیرہ البنات بالابن وبنات الابن بابن الابن) وإن سفلوا. " (الدر المختار:10/550-552،دار المعرفۃ)