021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیرسرکاری کمیٹیوں کے فیصلہ کے مطابق روزہ وغیرہ رکھنے کاحکم
59023روزے کا بیانروزے کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اگرلوكل كمیٹی اعلان كرنے كی مجازنہیں توجولوگ لوکل کمیٹی کے اعلان پرروزہ رکھیں گے یاعیدکریں گے توان کایہ فعل درست ہوگایانہیں؟گزشتہ جوروزے رکھےجاچکے اورعید کی چاچکی ان کاکیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پاکستان کے جن علاقوں میں گزشتہ سالہاسال سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان سے پہلے عید کااعلان کرکے جتنی عید کی نمازیں پڑھی گئی ہیں،روزے رکھے گئےہیں اور قربانیاں کی گئ ہیں ان کی عید کی نمازیں،روزے اور قربانیاں درست ہیں ،بشرطیکہ اس دن کسی اوراسلامی ملک میں بھی رمضان اورعید ہو،کیونکہ حنفیہ کے اصل قول (ظاہر الروایہ )کے مطابق اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ،یعنی ایک ملک میں چاند نظر آجائےاور یہ خبر معتبر ذرائع سے دسرے ملک کے مسلمانوں تک اس طرح پہنچ جائےکہ اس کے سچاہونے میں کوئی شک وشبہ نہ رہے تو دوسرے ملک کے مسلمان اس کے مطابق رمضان اورعید کرسکتے ہیں ۔لہذا اتنے سارے لوگوں کی گزشتہ قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے حنفیہ کے قول عدم اختلاف مطالع کو مدار بناکر جواز کا فتوی دیاجاسکتاہے ۔ البتہ آئندہ رمضان اور عید کے چاند کے مسئلہ میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان پر عمل کرناضروری ہے ،کیونکہ اس کا تعلق انتظامیات کے ساتھ ہے اور انتظامی امور میں حکومت کی نامز د کردہ کمیٹی کی حیثیت قاضی کی ہوتی ہے ،جس کے فیصلہ پر عمل کرنا ریاست کے تمام لوگوں پرواجب ہوتا ہے،نیز اس لئے بھی تاکہ کم ازکم عید کے دن تو پورے ملک میں اجتماعیت اور اتحا د کی فضا بن سکےاور انتشار وافتراق سے بچاجاسکے ۔ گزشتہ اور آئندہ کا فرق کثرت حرج کی وجہ سے کیاگیاہے جیسے صاحب ترتیب شخص سے کوئی نماز قضاہوجائےاور وہ قضاء نماز پڑھے بغیر وقتیہ نماز پڑھ لے تو اس کی نمازدرست نہیں ہوتی ،البتہ اگر اس نے اسی دوران پانچ سے زیادہ وقتیہ نمازیں پڑھ لیں تو اس کی یہ ساری نمازیں درست ہیں ،اس کی وجہ فقہاء نے لزوم حرج لکھی ہے صورت مسئلہ میں گزشتہ سالوں کی قربانی اورروزے دوبارہ لازم کرنے میں توشدید حرج ہے ،لیکن آئندہ میں نہیں ،اس لئے آئندہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر عید کرناضروری ہے ۔ اوراگر کسی علاقہ میں ایسے دن عید اور قربانی کی گئی جس دن کسی بھی اسلامی ملک میں عید اوررمضان نہیں تھاتوایسی صورت میں کسی کی بھی قربانی نہیں ہوئی اورنہ ہی رمضان کاروزہ ہوا،ایسے تمام لوگوں پر درمیانی قسم کی بکری کی قیمت ہر سال کے بدلے صدقہ کرناضروری ہے ۔اسی طرح روزے رکھنابھی ضروری ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (ج 7 / ص 386): "( واختلاف المطالع ) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده ( غير معتبر على ) ظاهر ( المذهب ) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة ( فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب ) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر ، وقال الزيلعي : الأشبه أنه يعتبر لكن قال الكمال : الأخذ بظاهر الرواية أحوط ." الفتاوى الهندية (ج 5 / ص 216): "ولا عبرة لاختلاف المطالع في ظاهر الرواية كذا في فتاوى قاضي خان .وعليه فتوى الفقيه أبي الليث وبه كان يفتي شمس الأئمة الحلواني قال لو رأى أهل مغرب هلال رمضان يجب الصوم على أهل مشرق." قال اللہ تعالی :{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ }(سورة النساء) البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (ج 13 / ص 388): "البينة لا تصير حجة إلا بقضاء القاضي، وله ولاية عامة فينفذ قضاؤه في حق الكافة." وفی" التحکیم فی الشریعة الاسلامیة"لعلامةمحمد بن سعد بن عواد حمدانی(ص40) "ان سلطة القاضی وصلاحیتہ عامة علی کافة الناس فی منطقة قضائہ ،لعموم ولایة الخلیفةالمقلد لہ" الفتاوى الهندية (ج 24 / ص 172): "وإذا اجتمع أهل بلدة على رجل وجعلوه قاضيا يقضي فيما بينهم لا يصير قاضيا" درر الحكام شرح غرر الأحكام (ج 3 / ص 254): "وإذا تركت حتى مضت أيام التضحية ( تصدق بها ) أي بالأضحية نفسها ( حية ناذر لمعينة ) أي من كان في ملكه شاة ، وقال لله علي أن أضحي بهذه الشاة تصدق بها أيضا ( فقير شراها ) أي الأضحية ( لها ) أي للتضحية فإنها تجب على الفقير بالشراء بنية التضحية عندنا . ( و ) تصدق ( بقيمتها غني شراها أو لا ) يعني إن كان غنيا تصدق بقيمة الأضحية اشترى أو لم يشتر ؛ لأنها واجبة على الغني فإذا فات الوقت وجب عليه التصدق إخراجا له عن العهدة كالجمعة تقضى بعد فواتها ظهرا والصوم بعد العجز فدية."
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب