021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی میں ملازمین کے رہ جانے والے "ورکرزپرافٹ پارٹیسپشن فنڈ” کاحکم
59065گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری لاہورمیں ایک مینو فیکچرنگ کمپنی ہے جہاں کپڑا اورگارمنٹ بنائے جاتے ہیں ،ہماری کمپنی میں ہزاروں لوگ ملازمت کرتے ہیں،معمول کے مطابق کمپنی مین نئے لوگ بھی آتے رہتے ہیں اورپرانے ملازمین بھی چھوڑ کرچلے جاتےرہتے ہیں، الحمد للہ ہماری کمپنی لیبر اورمزدوری سے متعلق عالمی قوانین کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوانین کی بھی مکمل پابندی کرتی ہے۔ پاکستان کے لیبر قانون میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جس سال بھی کمپنی کو منافع ہوگا اس کا کچھ حصہ مثلاً:0.5فیصداپنے ورکرز(workers)میں ماہانہ تنخواہ کے علاوہ تقسیم کرے گی جس کے لیے قانون میں ایک خاص اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ورکرزپرافٹ پارٹیسپشن فنڈ(workers partit participation fund)البتہ اس قانون کے تحت اس منافع کے حصول کے لیے کم از کم تین ماہ کی ملازمت درکارہوتی ہے سال کے بعد جب منافع کاتعین ہوتاہے اوراس کی تقسیم کی باری آتی ہے تو بہت سے ایسے ورکرز بھی ہوتے ہیں جو کمپنی چھوڑ چکے ہوتے ہیں اوران کا بھی اس منافع میں حصہ ہوتاہے ،ہم ان کو تلاش کرکے ان کی امانت ان کو اد اکردیتے ہیں، لیکن حال میں ہی ہمارے سامنے منافع کی ایک ایسی رقم آئی ہے جس کاتعلق گذشتہ چند سالوں سے ہے، اوران سالوں میں کافی بڑی تعداد میں لوگ آئے بھی اوچھوڑکربھی گئے، اب مسئلہ یہ ہے کہ ان چھوڑکر جانے والے ورکرز تک رسائی مستقل کوشش کے باوجود نہیں ہوپا رہی ہے،ہم نے ان کے اس منافع والی رقم کومحفوظ رکھاہواہے، اگر کوئی ان میں سے آجاتاہے توہم اس کو اس کاحصہ دے دیتے ہیں، لیکن ابھی بھی کثیر تعدادمیں ایسے ورکرز ہیں جن سے رابطہ کی کوئی ممکن صورت نہیں بن پارہی ہے ،آپ سے درخوست ہے کہ اس منافع کی رقم کے بارےمیں رہنمائی فرمائیں کہ شریعت میں اس کا کیاحکم ہے؟ آیا ہم اس رقم کو فلاحی اوررفاہی کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ آیا اس رقم کو موجودہ ورکرزکی فلاح وبہبود میں خرچ کیا جاسکتاہے یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ منافع کاحکم لقطہ (گری پڑی )چیز کا ہے کہ اس کے مالک کو حتی الامکان تلاش کیاجائے، اخبار میں اشتہار دیاجائے،دوسرے مناسب ذرائع سے اس کی تشہیر کی جائے اگر اس تشہیر کے نتیجے میں کوئی آجائے تو اس کو اس کاحق دیدیاجائےاوراگر نہ آئے تو فقراء پر صدقہ کردیاجائے ،موجودہ ورکرز میں اگر کوئی فقیر ہوتو اس کو بھی یہ رقم دی جاسکتی ہے ۔بہتریہ ہے کہ رفاہی خدمات میں اس مال کو صرف نہ کیاجائے، بلکہ کسی فقیر کوباقاعدہ مالک بناکردیاجائے۔ تشہیر اور تعریف کیلئے مفتی بہ قول کی بنا پر کوئی خاص مدت مقرر نہیں ہے، بلکہ اس وقت تک تعریف اور تشہیر ضروری ہوگی کہ ظن غالب پیدا ہو کہ مالک نے اب اس کی طلب اور جستجو ترک کی ہوگی اگرتصدق کے بعد مالک ظاہر ہوا اور صدقہ کئے جانے پر راضی نہ ہوا تو اس کو اس کا حق دینا پڑےگا اورصدقہ کا ثواب اب صدقہ کرنے والے کو ملے گا۔
حوالہ جات
وفی الدرالمختار: وعرف ای نادی علیہا حیث وجدہا وفی المجامع الی ان صاحبہا لا یطلبہا او انہا تفسد ان بقیت کالاطعمۃ ونقل فی ردالمحتار عن المضمرات والجوہرۃ وعلیہ الفتویٰ وفی الہندیۃ: ویعرف الملتقط اللقطۃ فی الاسواق والشوارع مدۃ یغلب علی ظنہ ان صاحبہا لا یطلبہا بعد ذلک ہو الصحیح کذا فی مجمع البحرین۔ (فتاویٰ ہندیۃ ۲:۲۸۹ کتاب اللقطۃ) امداد الاحکام جلد 3 صفحہ نمبر: 260 میں ہے : "احقر اب تک اس کو مثل صدقات واجب کے لازم التملیک سمجھتا تھا اور حضرت حکیم الامت واجب التصدق سمجھتے ہیں ، صدقہ واجبہ نہیں سمجھتے اور اب تک کسی جزئیہ صریحہ سے یہ اختلاف مرتفع نہیں ہوا البتہ رجحان قول حضرت حکیم الامت کو معلوم ہونا ہے وجدانًا۔ بعد میں جزئیہ مل گیا کہ اس میں دونوں قول ہیں مگر مشہور تملیک فقیر ہے رہا یہ کہ اس میں تبدل جائز ہے یا نہیں؟ سو بظاہر لقطہ کا حکم امانت کا حکم ہے اور امانت میں اداء عین واجب ہے اس لئے جب تک عین قائم ہو اسی کو تصدق کیا جائے اگر غلطی سے ہلاک کیا جائے تو پھر تصدق قیمت سے بھی ذمہ بری ہوجائے گا۔ وبہ افترق عن الزکاۃ ۔ واللہ اعلم " قال فی الدر فی مصارف بیوت المال: ما نصہ ورابعھا الضوائع مثل مالایکون لہ اناس وارثونا الٰی ان قال ورابعھا فمصرفہ جھات تساوی النفع فیھا المسلمون اھ۔ قال الشامی:قولہ: الضوائع جمع ضائعۃ أی اللقطات وقولہ مثل مالا الخ أی مثل ترکۃ لا وارث لہا أصلا ولہا وارث لا یرد علیہ کأحد الزوجین الخ قولہ: ورابعہا فمصرفہ جہات الخ موافق لما نقلہ ابن الضیاء فی شرح الغزنویۃ عن البزدوی من أنہ یصرف إلی المرضی والزمنی واللقیط وعمارۃ القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبہ ذلک اہ۔ولکنہ مخالف لما فی الہدایۃ والزیلعی۔أفادہ الشرنبلالی: أی فإن الذی فی الہدایۃ وعامۃ الکتب أن الذی یصرف فی مصالح المسلمین ہو الثالث کما مر وأما الرابع فمصرفہ المشہور ہو اللقیط الفقیر والفقراء الذین لا أولیاء لہم فیعطی منہ نفقتہم وأدویتہم وکفنہم وعقل جنایتہم کما فی الزیلعی وغیرہ۔وحاصلہ أن مصرفہ العاجزون الفقراء فلو ذکر الناظم الرابع مکان الثالث ثم قال: وثالثہا حواہ عاجزونا ورابعہا فمصرفہ الخ یوافق ما فی عامۃ الکتب۔(ج؍۳،ص؍۹۳)و فی الھدایۃ: ولایتصدق باللقطۃ علی غنی لان المامور بہ ھو التصدق لقولہ علیہ السلام فان لم یأتِ یعنی صاحبھا فلیتصدق بہٖ والصدقۃ لایکون علی غنی فاشبہ الصدقۃ المفروضۃ اھ (ج؍۲،ص؍۵۹۳) وھذا یفید قوۃ ما اجبت بہٖ من اشتراط التملیک فیہ۔ واللّٰہ اعلم۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب