021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ کاروبار میں تعین نفع کاضابطہ
59067شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

عرض یہ کہ ہم تین بھائیوں کی ایک دکان ہے اس دکان میں 19 لاکھ روپے کا مال ہے ، ان میں سے ایک بھائی کے ساڑھے پانچ لاکھ روپے ہیں ، لیکن یہ بھائی دکان مین بالکل وقت نہیں دیتے ،صرف ان کامال ہے ، دوبھائیوں مختلف کمپنیوں سے ساڑھے چودہ لا کھ کا مال لیکر اس مال کو دکان میں فروخت کرکے اس مال کی ادائیگی بطور کیش یاچیک کی صورت میں کمپنیوں کو کرتے ہیں ۔ بقیہ دوبھائیوں میں سے ایک بھائی دکان میں کل وقت دیتا ہے ، اور دوسرا بھائی فقط تین گھنٹے وقت دیتا ہے ۔ نیز دکان کا کل وقت صبح ساڑھے دس سے رات نوبجے تک ہے ۔ اب سوال یہ ہے ان تینوں بھائیوں میں ماہانہ نفع کس تناسب تقسیم ہوگا ؟ ہر بھائی کا حصہ قرآن وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں اگر ساڑھے چودہ لاکھ کا ذمہ دار بقیہ دونوں بھائی ہیں یعنی انہوں نے اپنی ذمہ داری پر یہ قرض وصول کیا ہے تو اس رقم کے مالک وہ دونوں بھائی ہونگے ۔ آپ تینوںبھائیوں کی یہ شرکت جائز ہے لیکن شرعا یہ ضروری ہے کہ آپ لوگ حاصل ہونے والے نفع کی تقسیم کے لئے باہمی رضامندی سے کوئی فیصدی شرح متعین کریں ۔ اور بہتر ہے کہ اس کو لکھ بھی لیں ۔ اس طرح عقد کی تفصیلات طے کرنے کے بعد نقصان کی صورت میں ہربھائی اپنے لگائے ہوئے سرمایہ کے تناسب سے نقصان کا ذمہ دار ہوگا ۔ نفع کی شرح کاتعین کرنے کے سلسلے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عام حالات میں تو آپس کی رضامندی سےجس کے لئے جتنا فیصد نفع متعین ہوجائے شرعا جائز ہے ، البتہ اگر عقد میں پورا یااکثر کام ایک شریک کے ذمہ مشروط ہو تو دوسرے کام نہ کرنے والے شریک کے لئے کل مال میں اس کےسرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع کی شرط جائز نہیں ۔ اگر نفس عقد میں یہ شرط نہ ہو بلکہ تبرعا کام کر رہاہو تو کام نہ کرنے والے کے لئے بھی زیادہ نفع کی شرط جائز ہے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 312) وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب