021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رب المال کو سیل پر متعین فیصدادائیگی کا حکم
60087مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا تھا، ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی سے چھ لاکھ روپیہ کاروبار کے لیےلیا اور یہ بات طے ہوئی کہ جو اس سے کاروبار ہو گا ، اس سے جو ایک مہینے میں سیل ہو گی ،اس سیل پر دو پرسنٹ منافع اس شخص کو دیا جائے گا ، جس نے پیسہ کاروبار میں لگایا ہے ،لیکن جس آدمی نے پیسہ کاروبار میں لگایا ہے ، وہ سلیپنگ پارٹنر ہے ،پیسے کے علاوہ اس آدمی کا کاروبار میں اور کوئی عمل دخل نہیں ہے اور سیل بھی اس کاروبار کی ہر مہینے ایک جیسی نہیں ہوتی، کبھی کم ہوتی ہے کبھی ذیادہ تو پلیز رہنمائی فرما دیجیے کہ اس طرح کسی سے پیسے لے کر کاروبار کرنا اور جتنی مہینے کی سیل ہو اس پر دو پرسنٹ اس آدمی کو مہینے کا منافع دینا سود کے زمرے میں تو نہیں آتا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ پیسے مضاربت پر لیے گئے ہیں،جو کہ شرعاً جائز ہے۔مضاربت میں ایک کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے۔البتہ منافع کی تعیین کا طریقہ درست نہیں ہے۔لہٰذا جو نفع ہوا ہے وہ سارا پیسے دینے والے کا ہوگا اور آپ کو اجرت مثل ملے گی۔آئندہ کے لیے درست طریقہ منافع کی تعیین کا یہ ہے کہ کاروبار سے حاصل ہونے والے حقیقی منافع میں فریقین آپس کی رضامندی سے ہر ایک کے لیے فیصد طے کریں۔لہٰذا مذکورہ صورت میں فریقین آپس میں ایک دوسرے کی رضا مندی سے یہ طے کرلیں کہ جو کاروبار سے منافع ہوگا اس کا اتنا فیصد مثلاً 40 فیصد سرمایہ کار یعنی رقم مہیا کرنے والے کا ہوگا اور باقی 60فیصد مضارب کا ہو گا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 645) المضاربة.(هي) لغة مفاعلة من الضرب في الأرض وهو السير فيها وشرعا (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 648) (وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد.ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة. الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 292) (قوله: ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما منه دراهم مسماة) لأن شرط ذلك يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا تلك الدراهم المسماة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب