ہماری مارکیٹ میں ایک دلال ہے اور کمال کا دلال ہے ۔اس کی مہارت مسلم ہے۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی سودے میں خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔جب اس طرح کا کوئی سودا ہوتا ہے تو وہ دونوں سے اپنا متعین کمیشن لیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہی معاملہ میں اس کا فریقین سے کمیشن لینا جائز ہے ؟
o
اگر مارکیٹ کا عرف یہی ہے کہ اس طرح کے خاص سودوں میں دلال کو فریقین کی طرف سے طے شدہ اجرت دی جاتی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ طے کرکے دونوں فریقوں سے متعین اجرت لینا جائز ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560)
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 560)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.