021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روزے کے افطار کا صحیح وقت ایک اشکال کا جواب
60057روزے کا بیانروزے کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اس سال رمضان میں منسلکہ رسالہ(افطار کا وقت کیا ہے؟ مؤلف: فدا محمد وقاص)ملا، اس میں مؤلف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہابیوں، دیوبندیوں، اہل حدیثوں اور وہ سنی لوگ جو ان کے ساتھ ہی روزہ افطار کرتے ہیں ان سب کا روزہ شمار نہیں ہوتا، اس لئے کہ یہ لوگ غروبِ شمس پر افطار کرتے ہیں حالانکہ قرآن میں " أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ" ہے ۔ اور لیل غروب سے 10 سے 15 منٹ کے بعد واقع ہوتی ہے، پس جب لیل سے پہلے روزہ افطار کیا تو یہ روزہ توڑنا ہو گیا۔ یہ پڑھ کے بندہ کو بہت دھچکا لگا اور احتیاط کی بنا پر 10 منٹ بعد روزہ افطار کر رہا ہوں اور اس میں کافی دقت ہو رہی ہے، افطار کے بعد نماز کے لئے جاتا ہوں تو ایک یا دو رکعت نکل چکی ہوتی ہیں، براہ مہربانی اس کا مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

روزے کی شرعی تعریف یہ ہے کہ طلوعِ فجر سے لے کر رات تک نیت کے ساتھ مفطرات سے بچا جائے، اور رات ہوتے ہی روزے کا وقت ختم ہو جائے گا، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ [البقرة/187]" منسلکہ رسالہ کے مؤلف نے اپنی تحریر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیتِ قرآنی میں روزے کے وقت کے ختم ہونے کے لئے جو رات کا ذکر ہے ، وہ رات " اللیل" سورج کا اوپر والا کنارہ افق میں چھپ جانے کے بعد 10 سے 15 منٹ کے بعد شروع ہوتی ہے، نہ کہ صرف سورج کا اوپر والا کنارہ افق میں چھپنے سے۔حالانکہ مؤلف کی یہ رأی نہ صِرف عربی لغت کے خلاف ہے بلکہ جمہور مفسرین ؒ، ائمہ اربعہؒ اور بالخصوص فقہاءِ احناف ؒ کی رأی کے خلاف ہے، بلکہ یہ روافض کا مسلک ہے، اہل سنت والجماعت کا اس رأی کے خلاف اجماع ہے، جیسا کہ درج ذیل دلائل سے ثابت ہے: اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ قرآنِ کریم عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے: "وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195) [الشعراء]" لہذا سب سے پہلے ذیل میں مستند عربی لغات کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے کہ رات(اللیل) کی ابتداء غروبِ شمس کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے، نہ کہ 10 سے 15 منٹ کے بعد۔ وفي تاج العروس : "الليل : ضد النهار معروف ۔۔۔۔۔۔ وحده من مغرب الشمس إلى طلوع الفجر الصادق۔" وفي لسان العرب : "اللَّيْلُ عقيب النهار ومَبْدَؤُه من غروب الشمس التهذيب۔" وفی المعجم الوسيط: "اللَّيْلُ : ما يَعقُب النهارَ من الظَّلام ، وهو من مَغرِب الشمس إِلى طلوعها . و اللَّيْلُ في لسان الشرع : من مَغرِبها إلى طلوع الفجر۔" في معجم اللغة العربية المعاصرة: " ليل [ مفرد ] : ج ليال : ما يعقب النهار من الظلام وهو من غروب الشمس إلى طلوعها ، يقابل النهار۔" ذیل میں مذکورہ بالا سورۂ بقرہ کی آیت (جس میں اللیل کا ذکر ہے) کی تشریح میں قدیم مفسرینؒ کے اقوال ذکر کئے جاتے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ مفسرینؒ کے نزدیک بھی رات (اللیل) کی ابتداء غروبِ شمس سے ہو جاتی ہے۔ و فی تفسير ابن كثير (ج 1 / ص 517، دار طيبة للنشر والتوزيع): "وقوله تعالى: { ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ } يقتضي الإفطار عند غُرُوب الشمس حكمًا شرعيًا، كما جاء في الصحيحين، عن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا أقبل الليل من هاهنا وأدبر النهار من هاهنا، فقد أفطر الصائم۔" و فی النكت والعيون للماوردي : "{ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيلِ } يعني به غروب الشمس۔" حتیٰ کہ مشہور مفسر امام فخر الدین رازیؒ نے تو اس تا خیر والے قول کی نسبت فرمایا کہ یہ پرانی بات ہے ، اس کے باطل ہونے پر اجماع ہےاور اس بحث میں پڑنا فضول ہے: و فی تفسير الرازي : "ثم لما بحثنا عن حقيقة الليل في قوله : { ثُمَّ أَتِمُّواْ الصيام إِلَى اليل } وجدناها عبارة عن زمان غيبة الشمس بدليل أن الله تعالى سمى ما بعد المغرب ليلاً مع بقاء الضوء فيه فثبت أن يكون الأمر في الطرف الأول من النهار كذلك ، فيكون قبل طلوع الشمس ليلاً ، وأن لا يوجد النهار إلا عند طلوع القرص ، فهذا تقرير قول الأعمش ، ومن الناس من سلم أن أول النهار إنما يكون من طلوع الصبح فقاس عليه آخر النهار ، ومنهم من قال : لا يجوز الإفطار إلا بعد غروب الحمرة ، ومنهم من زاد عليه وقال : بل لا يجوز الإفطار إلا عند طلوع الكواكب ، وهذه المذاهب قد انقرضت ، والفقهاء أجمعوا على بطلانها فلا فائدة في استقصاء الكلام فيها ۔" اسی طرح ائمہ اربعہؒ کے نزدیک بھی روزے کا وقت غروبِ شمس پر ختم ہو جاتا ہے، اور "الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ" (جو مذاھبِ اربعہ کا احاطہ کرتی ہے) میں اس معنیٰ پر اجماع نقل کیا گیا ہے: " ركن الصّوم باتّفاق الفقهاء هو : الإمساك عن المفطرات ، وذلك من طلوع الفجر الصّادق ، حتّى غروب الشّمس ۔"(ج28، ص20، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ) اسی طرح فقہ حنفی میں فتویٰ کے لئے بنیادی حیثیت رکھنے والی کتاب "فتاویٰ شامیہ" کے مصنف علامہ شامیؒ نے "زمان غیبوبۃ جرم الشمس" کے الفاظ سے بالکل وضاحت کر دی کہ روزے کے اختتام کا وقت سورج کی ٹکیہ کا افق میں چھپ جانا ہے۔ و فی رد المحتار (ج 3 / ص 384،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ): "والمراد بالغروب زمان غيبوبة جرم الشمس بحيث تظهر الظلمة في جهة الشرق قال صلى الله عليه وسلم { إذا أقبل الليل من هنا فقد أفطر الصائم }۔" مندرجہ بالا تمام حوالہ جات سے بالکل صراحت کے ساتھ یہ واضح ہوتا ہے کہ روزے کا وقت سورج کی اوپر والے کنارے کا افق میں چھپ جانے کے وقت ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بعد 2 سے 3 منٹ کی تأخیر بہتر ہے تاکہ دن کے ختم ہونے اور رات کے شروع ہو جانے کا یقین ہو جائے، لیکن اس کا مطلب ہر گز ہرگز یہ نہیں کہ سورج کے افق میں چھپ جانے کےبعد 10 سے 15 منٹ کے وقت کو بھی دن ہی کا حصہ شمار کیا جائے اور اس وقت میں روزہ افطار کرنے والوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کا روزہ نہیں ہوا۔ باقی رہی بات ان دلائل کی جو مؤلف نے اس رسالے میں ذکر کئے ہیں، تو وہ اتنے سطحی اور غیر واضح ہیں کہ سرے سے قابلِ التفات ہی نہیں، نہ کسی لغت کا حوالہ ہے اور نہ کسی تفسیر کی صریح عبارت، اسی طرح مؤلف نے اقرار بھی کیا کہ فقہاء غروبِ شمس کو رات کی ابتداء کہتے ہیں(صفحہ 6)، لیکن ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ " اس سے مراد زوال آثارِ شمس ہے"، حیرت کی بات ہے کہ فقہاء کی تصریح کے برخلاف مؤلف نے یہ معنی کہاں سے مراد لے لیا۔۔۔؟نیز مؤلف کے موقف کے مطابق لیل اور نہار کے درمیان فاصل یعنی ایسے وقت کا تصور ہوتا ہے جو نہ لیل میں داخل ہے اور نہ نہار میں، حالانکہ یہ غلط ہے،اس کے علاوہ چند غیر معروف کتب کا حوالہ دیا گیا، جن کی بنیاد پر ائمہ اربعہ ؒ کے اجماع، جمہور مفسرینؒ، علماءِ لغت اور متقدمین فقہاء ؒ کی آراء کے خلاف کرنا غلط اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔اس لئے رسالہ لکھنے اور اس کی تشہیر کرنے والے حضرات پر لازم ہے کہ اس گمراہ کن اور فتنہ انگیز مہم سے باز آجائیں اور علمی تحقیق کے نام پر لوگوں کو فتنہ میں نہ ڈالیں، قرآن پاک میں مسلمانوں کو فتنہ میں ڈالنے والے لوگوں کے لئے توبہ نہ کرنے کی صورت میں جہنم کی وعید آئی ہے۔فقط
حوالہ جات
.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب