021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پینافلیکس پر تصاویر ڈیزائن کرنا
60167جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب ! میرا ایک دوست پینا فلیکس کا کام کرتا ہے جس میں وہ مختلف چیزیں ڈیزائن کرتا ہےجن میں جاندار کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جو کبھی تو خود بناتا ہے اور کبھی کسٹمرز کے لائے ہوئے اشتہارات سے پرنٹ کرتا ہے۔اسی طرح محرم کے مہینےمیں اہل تشیع کے جلوس اور نوحہ ،ماتم وغیرہ کےلیے بھی اشتہارات تیار کرتا ہے۔اس کے علاوہ غیرمسلموں کے مذہبی تہوار وغیرہ کی تشہیر کے لئے پینا فلیکس تیار کرکے ان کا معاوضہ لیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا میرے دوست کی یہ کمائی حلال ہے یا حرام؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جاندار کی تصویر بنانا یا انسانی جسم کے کسی ایسے حصے کی تصویر بنانا جسے دیکھنا جائز نہیں ہے ، ناجائز اور حرام ہے ، خواہ ایسی تصویر خود ڈیزائن کی جاتی ہو یا کسٹمرز کے لائے ہوئے اشتہارات سے پرنٹ کی جاتی ہو ، لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔ اور ایسی ناجائز تصاویر والے پینا فلیکس کی آمدنی کا حکم یہ ہے کہ ناجائز تصویر لگانے کی وجہ سے جتنی رقم (اضافی)حاصل ہو وہ حرام ہے، البتہ ناجائز تصویر کےعلاوہ بقیہ چیزوں کی قیمت اور ان کی محنت و مشقت کی اجرت حلال ہے ۔ یعنی ناجائز تصویر والے پینا فلیکس اور ناجائز تصویر کے بغیر پینا فلیکس کی اجرت اور قیمت میں جو فرق ہو گا وہی اس تصویر کی آمدنی ہوگی اس کو بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہوگا۔ نوحہ ، ماتم اور غیرمسلموں کے مذہبی تہوار وغیرہ کی تشہیر کے لئے پینا فلیکس تیار کرنے سے باطل نظریات کی اشاعت میں معاونت ہو تی ہے اس لئے اس سے اجتناب لازم ہے ۔ ایسے پینا فلیکس کی آمدنی کا حکم یہ ہے کہ اگر پینا فلیکس پر پرنٹ کئے گئے الفاظ کفریہ عقائد یا شرک پر مبنی نہ ہوں تو اس کی آمدنی بلا کراہت حلال ہے اور اگر پینا فلیکس پر کفریہ عقائد یا شرک پر مبنی الفاظ پرنٹ کئے جائیں تو ایسے پینا فلیکس کی آمدنی کا وہی حکم ہوگا جو ناجائزتصویر والے پینا فلیکس کی آمدنی کا حکم ہے،یعنی یہ کہ وہ جائز نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها. قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون، بدليل قوله في الخلاصة بعد ما مر: أما إذا كان في يده وهو يصلي لا يكره وكلام النووي في فعل التصوير، ولا يلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ ولو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لا تحرم، بل ولا تكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. (رد المحتار:1/ 647) کل مال حراام لا یملکہ المرء فی الشرع ،سواء کان غصبا او سرقۃ آو رشوۃ او ربا فی القرض ،او ماخوذا ببیع باطل. وانہ حرام لغاصب الانتفاع بہاو التصرف فیہ ،فیجب علیہ ان یردہ الی مالکہ،او الی وارثہ بعد وفاتہ،وان لم یمکن ذلک لعدم معرفۃالمالک اووارثہ،او لتعذرالرد علیہ لسبب من الاسباب،وجب علیہ التخلص منہ بتصدقہ عنہ من غیر نیۃ ثواب الصدقۃ لنفسہ. )احکام المال الحرام: 1/2) وفی الفتاوى الهندية:ولو استأجر رجلا ينحت له أصناما أو يجعل على أثوابه تماثيل والصبغ من رب الثوب لا شيء له كذا في الخلاصة استأجر رجلا ليزخرف له بيتا بتماثيل والأصباغ من المستأجر فلا أجر له كذا في السراجية . (4/ 450) قال العلامۃ وھبۃ الزحیلی فی کتابہ:لا يجوز الاستئجار على المعاصي كاستئجار الإنسان للعب واللهو المحرم وتعليم السحر والشعر المحرم وانتساخ كتب البدع المحرمة…… (الفقه الإسلامي وأدلته:5/ 468) وفی الفتاوى الهندية: وإن استأجره ليكتب له غناء بالفارسية أو بالعربية فالمختار أنه يحل لأن المعصية في القراءة كذا في الوجيز للكردري..... (4/ 450)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب