ایک شخص کی بیوی میکے میں تھی شوہر نے اس کوفون پر اپنے گھر واپس بلایا وہ آنے سے انکار کر رہی تھی تو شوہر نے کہا اگر شام تک گھر نہ آئی تو تجھے طلاق ہے، بیوی پھر بھی شام تک گھر نہیں آئی ،شوہر نے صبح دوبارہ فون کرکے کہا اب ہم ایکدوسرے پر حرام ہوگئے ، اس سے کوئی نئی طلاق دینا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ سمجھ کر کہا کہ رات کو جو طلاق ہوئی اس سے نکاح ختم ہوگیا ، اور اس پر وہ قسم بھی کھانے کو تیار ہے، کیونکہ اس کو پتہ نہیں تھا کہ اس کے الفاظ سے بیوی پر طلاق رجعی واقع ہوئی ہے اور عدت کے دوران رجوع کاحق حاصل ہے ،
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر شوہرنے’’ہم ایکدوسرے پر حرام ہوگئے ‘‘ کے الفاظ واقعةنئی طلاق کے ارادہ سے نہیں کہے ہیں ، بلکہ رات والی طلاق کے متعلق ہی کہے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس جملہ سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی ،نیز پہلی طلاق بھی رجعی سے بائن نہیں بنی ، لہذا شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 279)
يقع كثيرا في كلام العوام: أنت طالق تحلي للخنازير وتحرمي علي وأفتى في الخيرية بأنه رجعي لأن قوله وتحرمي علي إن كان للحال فخلاف المشروع لأنها لا تحرم إلا بعد انقضاء العدة، وإن كانت للاستقبال فصحيح ولا ينافي الرجعة، وكذلك أفتى بالرجعي في قولهم أنت طالق لا يردك قاض ولا عالم لأنه لا يملك إخراجه عن موضوعه الشرعي.
وأيده في حواشيه على المنح بما في الصيرفية: لو قال: أنت طالق ولا رجعة لي عليك فرجعية، ولو قال: على أن لا رجعة لي عليك فبائن اهـ وقال: إن قولهم لا يردك قاض إلخ مثل قوله ولا رجعة لي عليك لأن حذف الواو كإثباتها كما لو ظاهر، لا مثل علي أن لا رجعة اهـ. قلت: والفرق أن علي أن لا رجعة قيد للطلاق لأنه شرط فيه، فهو في معنى أنت طالق طلاقا مشروطا فيه عدم الرجعة: أي طلاقا بائنا، فهو داخل تحت القاعدة من أنه إذا وصف الطلاق بضرب من الشدة والزيادة يقع به البائن كما مر عن الهداية. أما ولا رجعة لي عليك فليس صفة للطلاق بل هو كلام مستأنف أخبر به عما هو خلاف الشرع، فإن الشرع هو وقوع الرجعي بأنت طالق؛ فقوله ولا رجعة لغو،
مثل قوله: أنت طالق وبائن أو ثم بائن بلا نية كما مر، وكذا قولهم لا يردك قاض إلخ ليس صفة للطلاق بل هو صفة للمرأة فلم يدخل تحت القاعدة