021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ھبہ کا حکم
57220ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

فتویٰ نمبر:56/ سائل: عابد سوال: ایک آدمی ہے اس نے اپنی زندگی میں ایک ایکڑ زمین اپنے بھائی کو ہدیہ کے طور پر دیدیا، اب جس بھائی نے ہدیہ دیا تھا وہ مرگیا اور اس کے بیٹوں نے اس بھائی سے وہ زمین لے لیا اور کہا کہ یہ ہمارے باپ نے آپ کو ایک وقت مقررہ تک دیا تھا اور وہ وقت مقررہ ہمارے والد صاحب کی وفات کے وقت ختم ہوگیا۔ اب یہ زمین ہماری ہے اورہم ان کو زمین نہیں دے رہے ہیں جبکہ وہ صاحب بول رہے ہیں کہ یہ زمین آپ کےوالد صاحب نے مجھے ہدیہ کے طور پر دی تھی تو اب اس بارے میں مفتیان کرام کا شرعی فتوی کیا ہے، ہمیں فتوی دیکر مشکور و ممنون ہوجائیں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو زمین ھبہ کی اور اس بھائی نے ھبہ کی ہوئی زمین پر قبضہ بھی کرلیا تو ھبہ تام ہوگیااور زمین پر اس کی ملکیت آگئی ، چنانچہ ہدیہ کرنے والے بھائی کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کو اپنے چچا سے زمین واپس لینے کاشرعاً کوئی حق نہیں ہے۔ان کا ایسا کرنا ظلم ہے، جس پر وہ سخت گناہ گار ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ اس ظلم سے توبہ کریں اور زمین واپس چچا کے حوالہ کریں۔ اگر بالفرض مذکورہ صورت میں یہ ثابت ہو بھی ہوجائےکہ بھائی نے اپنے بھائی کو زمین ایک مقررہ وقت تک کے لیے دی تھی اور وہ مقررہ وقت اس کی وفات کے وقت ختم ہوچکا ہے تب بھی یہی حکم ہے کہ وہ زمین ہمیشہ کے لیے اس کے بھائی کی ملکیت ہوچکی ہے،کیونکہ زمین جب ایک مرتبہ ھبہ کردی جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے موھوب لہ (جس کو ھبہ کی گئی ہے) کی ملکیت میں آجاتی ہے۔
حوالہ جات
"الهبة عقد مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" (الهداية في شرح بداية المبتدي3/222 ط:دار احیاء التراث العربی) (المادة 837) تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض. (مجلة الأحكام العدلية (ص: 162)ط:نور محمد کارکانہ) "وأما الثالث فلقوله - عليه الصلاة والسلام - «فمن أعمر عمرى فهي للمعمر له ولورثته من بعده» وكذا إذا قال جعلت هذه الدار لك عمرى لما قلنا." (العناية شرح الهداية9/25 ط:دار الفکر) "(وإما) إن كان منفعة فإن كان وقتا بأن قال أعمرتك هذه الدار أو صرح فقال جعلت هذه الدار لك عمرى أو قال جعلتها لك عمرك أو قال هي لك عمرك أو حياتك فإذا مت أنت فهي رد علي أو قال جعلتها عمري أو حياتي فإذا مت أنا فهي رد على ورثتي فهذا كله هبة وهي للمعمر له في حياته ولورثته بعد وفاته والتوقيت باطل والأصل فيه ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «أمسكوا عليكم أموالكم لا تعمروها فإن من أعمر شيئا فإنه لمن أعمره» وروى جابر بن عبد الله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال «أيما رجل أعمر عمرى له ولعقبه فإنها للذي يعطاها لا يرجع إلى الذي أعطاها لأنه أعطى عطاء وقعت فيه المواريث» ." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع6/116 ط:دار الکتب العلمیۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد کامران

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب