عرض یہ ہے کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں ۔ میرے شوہر ان کے والدین ، اور ان کے تین بھائی اور تین بہنیں ہم سب ایک مشترکہ مکان میں رہائش پذیر تھے ۔3 سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے،اس وقت میرے سسر زندہ تھے ، شوہر کے انتقال کے بعد میں ساس سسر کے ساتھ رہنے لگی ، اب ایک سال قبل میرے سسر کا بھی انتقال ہوچکا ہے ، اس نے اپنی ملکیت کی کوئی تقسیم نہیں کی جبکہ میں اسی مکان میں دیور اور ساس کے ساتھ رہتی تھی ، اب میرے شوہر کے بھائی ملکیت تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،
اب سوال یہ ہے کہ میراث میں میرا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ اور میری اولاد بھی کوئی نہیں ہے ۔
نوٹ ؛
کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ میراث میں اس بیوہ کاحصہ نہیں بنتا ۔ دلیل یہ دیتے ہیں جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا اس وقت اس کے والد زندہ تھے ، تو بیٹے کا سارا مال والد کا ہوتاہے ، اس وقت تقسیم نہیں ہوئی تھی اب باپ کی میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں
میرا شوہر سرکاری ملازم تھا ، اس کی پنشن اور ریٹائر منٹ بھی مشترکہ استعمال ہوتی رہی ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
١۔واضح ہوکہ بیوہ فنڈ اور پنشن یہ دونوں بیوہ کےحق ہیں ،اس میں دیگر رشتہ دار، ماں باپ بہن بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔
ابتک اس میں سے جوکچھ بیوہ نے خودکھایا اور اس کی اجازت سےمشترکہ طورپر خرچ ہوگیا ہے وہ کسی سے واپس نہیں لیا جاسکتا البتہ آیند ہ کے لئے وہ بیوہ ہی کو دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے خرچ کرسکے ۔
۲۔چونکہ بیوہ کے شوہر کا انتقال اپنے والد سے پہلے ہوا ہے اس لئے والد کی میراث میں اس کا اور بیوہ کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔
۴۔اگر انتقال کے وقت بیوہ کے شوہر کی ملکیت میں کوئی ذاتی مال تھا تو اس میں بیوہ کا چوتھا حصہ ہے ۔
لہذا مرحوم شوہر نے بوقت انتقال منقولہ غیر منقولہ جائداد ،سونے چاندی ، نقدی اور چھوٹا بڑا جوبھی سامان اپنی ملک میں چھوڑا ہے ،سب مرحوم کا ترکہ ہے ،اس میں کفن دفن کا حصہ منہا کرنے کے بعد اگر ان کے ذمہ کسی کاقرض ہو تو وہ چکایا جائے ، اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا وہ بھی قرض میں داخل ہے ،اس کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو توتہائی مال تک اس کو ادا کیا جائے ، اس کے بعد مال کی تقسیم اسطرح ہوگی ۔
بیوہ کاحصہ = ٪ 25
والدہ کا حصہ = ٪ 25
والد کاحصہ = ٪ 50
والد کو ملنے والاحصہ ترکہ میں شامل ہوکر ان کے ورثا میں تقسیم ہوگا