021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدار کے خریدار سے چیز واپس خریدنے کا حکم
60173خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

ہمارے پاس گاری کا شوروم ہے۔اگر کوئی گاہک ہم سے ادھار کچھ مہنگی قیمت پر گاڑی لیتا ہے تو ہم اس کو گاڑی کی چابی دیتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ آپ اپنی گاڑی لے جا سکتے ہیں۔ وہ ہم سے چابی لیکر کسی اور کو نقد قیمت میں سستےدام پر فروخت کردیتا ہے اور اس سے نقد پیسے لیکرگاڑی کی چابی اس کو دیتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ لے جانا چاہو تو لے جا سکتے ہو۔ وہ اگلا خریدار بھی گاڑی کو نہیں لے جاتا اور وہ اگلا خریدار ہمیں نقد قیمت پر وہ گاری سستے دام پر بیچ دیتاہے اور ہمیں اس گاڑی کی چابی دے دیتاہے۔ کیا اس طرح ہمارے لیے اپنے خریدار کے خریدار سےگاڑی لینا جائز ہے؟ جبکہ وہ گاری ہمارے شوروم میں ہی کھڑی رہتی ہے۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر آپ کے خریدار سے خریدنے والا آپ کا وکیل ہو یا آپ کے گاڑی کے شوروم کا ملازم ہو یا اس کے ساتھ آپ کا پہلے سے یہ معاہدہ ہو کہ وہ گاڑی لیکر آپ کو فروخت کردے گا تو آپ کے لیے اس سے بیچنے کی قیمت سے کم قیمت پر خریدنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے اس صورت میں اس تیسرے شخص کو محض حیلے کے طور پر درمیان میں لایا جارہا ہے۔البتہ اگر آپ کے خریدار سے خریدنے والے کے ساتھ آپ کا کسی قسم کا تعلق نہ ہو بلکہ وہ اجنبی ہو تو آپ کے لیے اس سے بیچنے کی قیمت سے کم قیمت پر گاڑی خریدنا جائز ہے۔
حوالہ جات
" (و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا… أي لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالا أو مؤجلا هداية، وقيد بقوله وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لا يجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول"…(قوله من الذي اشتراه) متعلق بشراء، وخرج به ما لو باعه المشتري لرجل أو وهبه له أو أوصى له به ثم اشتراه البائع الأول من ذلك الرجل فإنه يجوز؛ لأن اختلاف سبب الملك كاختلاف العين زيلعي (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5/73 ط:دار الفکر-بیروت) "(ومنها) الخلو من شبهة الربا لأن الشبهة ملحقة بالحقيقة في باب الحرمات احتياطا… وعلى هذا يخرج ما إذا باع رجل شيئا نقدا أو نسيئة، وقبضه المشتري ولم ينقد ثمنه - أنه لا يجوز لبائعه أن يشتريه من مشتريه بأقل من ثمنه الذي باعه منه عندنا، وعند الشافعي - رحمه الله - يجوز… ولو خرج المبيع من ملك المشتري فاشتراه البائع من المالك الثاني بأقل مما باعه قبل نقد الثمن - جاز؛ لأن اختلاف الملك بمنزلة اختلاف العين فيمنع تحقق الربا." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/198 ط:دار الکتب العلمیۃ) "(قوله وشراء ما باع بالأقل قبل النقد) أي لم يجز شراء البائع ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن… وأما شراء البائع ممن اشترى من مشتريه فجائز وفاقا" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري6/90 ط:دار الکتاب الاسلامی) "قال (وشراء ما باع بالأقل قبل النقد) ومعناه أنه لو باع شيئا وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لا يجوز… وشرطنا أن يكون الشراء من مشتريه أو من وارثه؛ لأنه لو باعه المشتري من رجل أو وهبه لرجل أو أوصى لرجل ثم اشتراه البائع الأول من ذلك الرجل يجوز؛ لأن اختلاف سبب الملك كاختلاف العين أصله حديث بريرة حيث قال - عليه السلام - «هو لها صدقة ولنا هدية»" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي4/53 ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب