021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بی سی تاخیر سے ادا کرنے پر جرمانہ
60174جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم محترم مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے بی سی لگائی ہوئی ہے جس میں 20 افراد شامل ہیں اور ہم نے یہ اصول طے کیا ہے کہ جس شخص نے مقررہ وقت پر رقم کی ادائیگی نہ کی تو اس کو 1500 روپے جرمانہ ادا کرنا ہے تو کیا یہ جرمانہ لینا شرعاً درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جرمانہ، مالی تعزیر کی ایک صورت ہے اور مالی تعزیر جمہور فقہاء کے ہاں جائز نہیں ہے، لہذا آپ کے لیے مقررہ وقت پر بی سی کی بی سی کی رقم ادا نہ کرنے والے پر 1500 روپے جرمانہ لینا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي. وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/61 ط:دار الفکر بیروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب