کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
اگر کوئی شخص جہالت میں چوری وغیرہ کرتارہا اوراب اللہ رب العزت نے اس کو حلال کمانےکی توفیق عطافرمائی ہے اوروہ توبہ بھی کرچکا ہے توکیا اس توبہ سے گناہ معاف ہوگئے یا جن کا مال تھاان سے معافی مانگنا بھی ضروری ہے ؟اوراگر ان کےسامنے معافی کے لیے نہ جاسکتاہوتو کیاکرنا چاہیے اوراگر اب اتنی استطاعت نہ ہوکہ وہ اتنی بڑی مقداریکمشت واپس کردے تو اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہوگا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرمالک معلوم ہوتو اسی کو کسی طرح لوٹانا ضروری ہےتاہم یہ تصریح ضروری نہیں کہ یہ میں نےآپ سے چوری کی تھی،لہذااگر ہدیہ کہہ کردیدے تب بھی اس کاحق اد ہوجائے گا۔ اوراگرچوری کردہ مال کا مالک معلوم نہ ہو توصدقہ کرنا ضروری ہے ۔اگرچوری کامال یکمشت واپس نہ کرسکے تو تھوڑا تھوڑا کرکے بھی واپس کیا جاسکتاہے ۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار للحصفكي - (ج 4 / ص 472)
(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافا، كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالاعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون (في العقبى) مجتبى.
وفی الذخيرة في الفقة المالكي - (ج 6 / ص 23)
قاعدة الأموال المحرمة من الغصوب وغيرها اذا علمت أربابها ردت اليهم وإلا فهي من أموال بيت المال تصرف في مصارفه الأولى فالأولى من الأبواب والأشخاص على ما يقتضيه نظر الصارف من الامام أو نوابه أو من حصل ذلك عنده من المسلمين فلا تتعين الصدقة قد يكون الغزو أولى في وقت أو بناء جامع او قنطرة فتحرم الصدقة لتعيين غيرها من المصالح وانما يذكر الأصحاب الصدقة في فتاويهم في هذه الأمور لأنها الغالب
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 179)
وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 115)
(قوله من أخذ مال) .......أما لو كان المال باقيا يرده إلى مالكه كما في الملتقى
قال الشیخ المفتی محمد تقی العثمانی حفظہ اللہ تعالی:
وان دفع عین المغصوب من غیر خلط لم یجز "والظاھر ان ھذا القدرمتفق علیہ ۔﴿وقال الشیخ فی الحاشیة تحت قولہ :"وان دفع عین المغصوب من غیر خلط لم یجز"وعدم جواز عین المغصوب للفقیر محمول علی ما اذا امکن ردہ الی مالکہ﴾ .اما اذا کان الاخذ لاتحل لہ الصدقة فللفقھاء فیہ اقوال والراجح من مذھب المالکیة والحنفیة لایحل لہ الانتفاع بہ.....ووجہ الفرق بین الفقیر والغنی فی ھذہ المسئلة ان الملک الخبیث سبیلہ التصدق الی الفقراء اذا لم یرد الی مالکہ الاول ،فجاز للفقیراخذہ ولکن ذلک لایبرئ ذمة الغاصب ان امکن دفع الضمان الی مالکہ الاول ولانعلم خلافافی ھذا بین الفقھاء. (أحکام المال الحرام ص: 13،14)