021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی لاپروائی،نافرمانی اورطلاق کامطالبہ کرتی ہو
60249طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

مسئلہ نمبر ۱۔توہین قرآن وحدیث اوراسلامی کتب تفصیل : ۱۔عالمہ فاضلہ کاکورس مکمل ہونے کے بعد اورشادی ہونے کے بعد یہ ساری اسلامی کتابیں بشمول قرآن وحدیث زوجہ نے کپڑے لٹکانے والی الماری کے اوپراس طرح پھینکی ہوئی تھیں،جیساکہ کباڑ کے گودام میں کباڑ پھینکاہواہوتاہے،میں نے جب دیکھاتومجھےدکھ ہوا،اورسوچاکہ ان اسلامی کتابوں کوادب کے ساتھ کیسے اورکہاں رکھاجائے،چنانچہ میں نے شوکیس الماری کاانتخاب کیا اوربرتنوں کوسمیٹ کرجگہ بنائی اورکتابیں رکھ دیں،میرے انتخاب یافیصلے کی مخالفت کرکے چند دنوں بعد ان کتابوں کوپہلی حالت میں واپس لے آئی،اورکتابوں والی الماری چوہوں کی آماجگاہ بن گئی،پھرچوہوں کی دوالگائی تواس سے کتابوں پردھبے لگ گئے،پھرمیں نےساری کتابیں صاف کرکے ایک صندوق میں رکھ دیں۔ ۲۔زوجہ بچوں کوتعلیم دیتی ہےجب بچوں سے قاعدے،سپارے پھٹ جاتے ہیں تویہ ان کواٹھاکرعام ڈسٹ بن میں ڈالتی ہے۔ ۳۔گھرکے قریب جامع مسجد کے باہرعلماء کرام کے بیانات کے اشتہارات جوبوسید ہوچکے تھے میں گھرلایاکہ جلاکر ان کو نالہ دوڑ میں بہادوں گا،لیکن زوجہ نے وہ راکھ بھی عام ڈسٹ بن میں ڈالدی۔ ۴۔زوجہ کابھائی عارف اوراس کی اہلیہ نے بتایاکہ زوجہ والدین کے گھر بھی اسی طرح دینی کتابوں کی توہین کرتی تھی۔ ۵۔کمرے کی چھت کے اوپروالے کچن میں ایک ریک پرایک قرآن پاک اورایک مسنون دعاؤں کی کتاب اس حالت میں پڑی تھی جیسے کچن کے بغیر دھلے ہوئے برتن بکھرے ہوتے ہیں، میں نے ان کو اکٹھاکرکے لفافے میں رکھ کردیوارپرلٹکایا،زوجہ نے پھراسی طرح ان کوبکھیردیا،میں نے دوبارہ پھران کورکھا۔ مسئلہ نمبر ۲۔لاپرواہی تفصیل: ۱۔باتھ روم کے قریب دیواروالاشیشہ ٹوٹے ہوئے دودن گزگئے اوراٹھایااس لئے نہیں کہ جب باتھ روم کی صفائی ہوگی جب اٹھاؤں گی۔ ۲۔دودھ گرم کرکے کے لئے گیس کے چولہے پررکھا،دودھ خشک ہوگیا،آگ پکڑلی،برتن بھی جل گیا،ہیٹربھی گنداہوگیا،کچن کے برتنوں کاکیاحال ہوتاہے،ان کوگندارکھ کرگھرکاماحول خراب کیاہواہے۔ مسئلہ نمبر 3۔نافرمانی تفصیل : ۱۔زوجہ کوکئی بارکہاہےکہ وضوکے لئے لوٹااستعمال کیاکرو،لیکن زوجہ نے کبھی میراکہنانہیں مانااورنلکاکھول کربیٹھ جاتی ہے،پانی ضائع ہوتارہتاہے۔ ۲۔بچیوں کے اسکول جانے کے لئے پانی کی بوتلیں ہردوسرے روزلانی پڑتی ہیں صرف زوجہ کی لاپروائی اورمیراکہنانہ ماننے کی وجہ سے۔ ۳۔زوجہ کی ممانی(ساس)اکثربیماررہتی ہیں اورگھرکاکام کاج خودکرتی ہیں،اس کے شوہر فردوس نے کہاکہ زوجہ امی بیمارہیں اورکپڑے دھورہی ہیں،تم مزے سے لیٹی ہوئی ہو،اٹھ کرامی کے ساتھ ہاتھ بٹاؤ،زوجہ نے جواب دیاکہ بڑی مشکل سے ان سے علیحدہ ہوئی ہوں،پھران میں گھس جاؤں مسئلہ نمبر 4۔مطالبہ طلاق تفصیل:زوجہ جب سے ہمارے گھر آئی ہے،اس کاسلوک ہم سے اچھانہیں ہے،کینہ پروروبخیل اورجھگڑالوعورت ہے،شروع دن سے ہی یہاں پرخوش نہیں ہے،جب بھی اس کوکوئی تنبیہ کی جاتی ہے،وعظ ونصیحت کی جاتی ہے،کسی کام کے کرنے کوکہاجاتاہے تواس کاجواب یہی ہوتاہے کیامیں انسان نہیں ہوں،آخرمیں بھی توانسان ہوں،اگرآپ مجھے انسان نہیں سمجھتے تومجھے چھوڑدیں،طلاق دیدیں،زوجہ کے اس جواب میں مشرق کی عورت اورانسان مرادنہیں ہے،مشرق کی دوعورتیں ایک مردکے برابر ہیں،اورعورت کومردکے تابع کیاگیاہے،مردحاکم ہے عورت پرمردکوعورت پرفضیلت اوربرتری حاصل ہے،زوجہ کے اس جواب میں مغرب کی عورت اورانسان مرادہے،جوبے لگام اوربے مہارہے،زوجہ بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کومغرب کی عورت کی طرح بے لگام بے مہار چھوڑدیاجائے،کوئی ڈانٹ ڈپٹ بازپرس وعظ ونصیحت نہ کرے،اورنہ ہی کوئی اپناحکم اس پرمسلط کرے،کوئی نقصان ہوتاہے ہونے دو،کوئی بے ادبی ہوتی ہے ہونے دو،کوئی توہین ہوتی ہے ہونے دو،کوئی نافرمانی ہوتی ہے ہونے دو۔ پوچھنایہ ہے کہ زوجہ کوبے لگام بے مہارچھوڑدوں یاطلاق دیدوں؟ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱،۲،۳۔ بہترازدواجی زندگی گزارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ میاں بیوی کوایک دوسرے کے حقوق کاعلم ہواوروہ ایک دوسرے کے حقوق بہترطریقے سے اداء کریں،حقوق کاعلم مستندومتقی علماء کی صحبت اوراس بارے میں لکھی گئی ان کی کتابوں کے مطالعہ سے حاصل ہوسکتاہے ،حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ(دونوں سے ایک دوسرے کے) حقوق کی پامالی نہ ہو،اوراگرکبھی ہوبھی جائے تودونوں طرف سےعفوودرگزرسے کام لیاجائے،زندگی کایہ سفر جس کاکچھ پتہ نہیں مقدرمیں ہوتوسالہاسال کابھی ہوسکتاہے اورمقدرمیں نہ ہواورمیاں بیوی میں نباہ نہ ہوتو طلاق اورجدائی بھی منٹوں کاکھیل ہے، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ ازدواجی سفر کوپیارمحبت سے گزاراجائے ۔ اگرعورت نافرمان اورلاپرواہےاوراسی لاپروائی میں اس سے توہین قرآن وغیرہ ہوجاتی ہے توبھی اس کو پیارمحبت سے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے،شوہر کی خدمت کےفضائل وغیرہ کے ذریعے، اس کوفرمانبرداربنانے کی کوشش کریں،عورت کوچاہئے کہ اپنے خاوندکی اطاعت جب تک کہ وہ کسی ناجائزکام کاحکم نہ کرے ،لازمی کرے ،بلکہ حدیث میں تویہاں تک آیاہےحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگراللہ کے علاوہ کسی اورکوسجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تومیں عورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے ،شوہرکی اطاعت کی تاکیدکی ا س سے بڑی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی،اس لئے جائزکاموں میں شوہر کی مخالفت کسی صورت جائزنہیں ہوگی۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں شوہرکے مال کوضائع کرنے سے متعلق جووعیدیں آئی ہیں ان کے ذریعے اس کوسمجھائیں،مثلاحدیث میں ہےکہ شوہر کے گھرکاجتنا مال(سامان)ہے وہ سب بیوی کے پاس امانت ہے،اس کی حفاظت کرنا،خراب ہونے سے بچاناخودبیوی ہی کی ذمہ داری ہے،اسی طرح ایک اورحدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بیوی سے اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ شوہر کامال کہاں کہاں خرچ کیا۔ اسی طرح بیوی کویہ بھی سمجھاناچاہئےکہ اس قدرلاپروائی(جس سے توہین تک نوبت آجائے)اس سے بچنابہت ضروری ہے،کہیں ایسانہ ہووہ ایمان سے ہی ہاتھ دوبیٹھے۔ بیوی کواپنے ان تمام افعال سے توبہ واستغفارکرناچاہئے،اورآئندہ کے لئے ایسے کاموں سے اجتناب کرناچاہئے،بیوی پرلازم ہے شوہر کوخوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کرے۔ دوسری طرف شوہر کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ بیوی کے ساتھ،پیارمحبت کے ساتھ رہے،حدسے زیادہ بیوی کے پیچھے پڑھے رہنا،اس کے عیوب کوتلاش کرنا،اس کومکمل ٹھیک کرنے کی کوشش کرنابھی فضول ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ عورت پسلی سے پیداہوئی اورسب سے ٹیڑھاپن اس پسلی میں ہے جواوپرکی ہے، اگرآپ اس کوٹھیک کرنے کی کوشش کروگے توتوڑدوگے ،اس لئے اس کومکمل ٹھیک کرنے کی کوشش کرنابھی حماقت ہے،جتنی ٹھیک ہوجائے اسی پرصبروشکرسے کام لیاجائے۔ اسی طرح شوہرکوچاہئےکہ عورت کوخدمت پرزبردستی نہ کرے،عورت کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، بلاوجہ تنگ کرنابالکل بھی ایک سمجھ دارآدمی کوزیب نہیں دیتا،عورت پرتو خاص اپنے شوہرکی خدمت بھی شرعی قانون میں کوئی ایسافرض واجب نہیں کہ شوہرعدالت کے ذریعے اس سے مطالبہ کرسکے ،چہ جائے کہ شوہرکے والدین کی خدمت کروانا،البتہ دیانۃ عورت پراپنے شوہرکی خدمت اورگھرکاکام کاج واجب ہے ،اس کے بغیرزندگی کی گاڑی خوشگواری سے چلناممکن نہیں،اوربیوی پرشوہرکے والدین کی خدمت بھی اگرچہ شرعاواجب نہیں،لیکن اگروہ بیمارہیں،خدمت کے مستحق ہیں،توبیوی کواخلاقاچاہئے کہ ان کی خدمت کرے،گھرکے کام کاج میں ساس کاہاتھ بٹائے،ساس کوماں کادرجہ دے،توساس بھی اس کے ساتھ بیٹیوں کاسابرتاؤکرےگی،ورنہ آئے دن لڑائی جھگڑے ہوتے رہیں گے،گھرکاسکون بربادہوجائے گا،شادی کامقصد(ایک خوشخال زندگی گزارنا)فوت ہوجائے گا۔ خلاصہ یہ کہ ازدواجی زندگی میں غلطی و کوتاہی لازمی طورپر دونوں طرف سے ہوتی ہے،میاں بیوی میں سے کوئی بھی فرشتہ صفت انسان نہیں ہوتاکہ اس سے غلطی کاامکان نہ ہو،استفتاء میں جہاں آپ نے اپنی بیوی کی برائیاں ذکرکی ہیں،وہیں بیوی کی طرف سے اس کی تفصیل بھی ہونی چاہئےکہ آپ کاان کے ساتھ رویہ کس قسم کاہے؟موجودہ صورتحال میں یک طرفہ استفتاء کاجواب دیاگیاہے۔ (1) ۔ ۴۔سابقہ ساری تفصیل کے بعد بھی اگرعورت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتی اورطلاق کامطالبہ کرتی ہےتواگر شوہربھی یہ سمجھتاہے کہ اب مزید ہماراایک ساتھ زندگی گزارناناممکن ہے،اورجدائی کے علاوہ کوئی حل نہ ہوتوپھر شریعت میں اس کابہترراستہ موجودہے،یعنی اچھے طریقے سے چھوڑدینا(طلاق دینا)اگرچہ طلاق کوحلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ قراردیاگیاہے،لیکن ایسی مجبوری کی صورت حال ہوتوپھرطلاق دیناہی بہترہے،اورامیدہے ان شاء اللہ گناہ بھی نہیں ہوگا۔ (2)بہتریہ ہے کہ ایک طلاق رجعی دی جائے،ہوسکتاہے کہ طلاق کے بعدعدت کےاندر بیوی اپنی حرکتوں سے بازآجائے توعدت کے اندردوبارہ بغیرنکاح کے رجوع ہوسکتاہے۔
حوالہ جات
(1) "الجامع الصحيح سنن الترمذي" 3 / 193: عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها قال وفي الباب عن معاذ بن جبل وسراقة بن مالك بن جعشم وعائشة وابن عباس وعبد الله بن أبي أوفى۔۔۔۔ "صحيح مسلم "2 / 1090:عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت واستوصوا بالنساء فإن المرأة خلقت من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه إن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج استوصوا بالنساء خيرا ۔ [ ش ( وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه ) يعني أنها خلقت من أعوج أجزاء الضلع فلا يتهيأ الانتفاع بها إلا بالصبر على تعوجها ] سنن الترمذي" 4 / 230: عن أبي أمامة الباهلي قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع إن الله قد أعطى لكل ذي حق حقه فلا وصية لوارث الولد للفراش وللعاهر الحجر وحسابهم على الله ومن ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة لا تنفق امرأة من بيت زوجها إلا بإذن زوجها قيل يا رسول الله ولا الطعام قال ذلك أفضل أموالنا ثم قال العارية مؤداة والمنحة مردودة والدين مقضي والزعيم غارم قال أبو عيسى وفي الباب عن عمرو بن خارجة وأنس وهو حديث حسن صحيح ۔ "سنن الترمذي" 5 / 277: عن ثوبان قال لما نزلت { الذين يكنزون الذهب والفضة } قال كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في بعض أسفاره فقال بعض أصحابه أنزل في الذهب والفضة ما أنزل لو علمنا أي المال خير فنتخذه ؟ فقال أفضله لسان ذاكر وقلب شاكر وزوجة مؤمنة تعينه على إيمانه قال هذا حديث حسن ۔ ًً"صحيح البخاري"3 / 120: عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كلكم راع ومسئول عن رعيته فالإمام راع وهو مسئول عن رعيته والرجل في أهله راع وهو مسئول عن رعيته والمرأة في بيت زوجها راعية وهي مسئولة عن رعيتها والخادم في مال سيده راع وهو مسئول عن رعيته قال فسمعت هؤلاء من رسول الله صلى الله عليه وسلم وأحسب النبي صلى الله عليه وسلم قال والرجل في مال أبيه راع وهو مسئول عن رعيته فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته۔ "حاشية رد المحتار" 4 / 406: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الايمان أمورا الاخلال بها إخلال بالايمان اتفاقا، كترك السجود لصنم وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة، وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به، لان ذلك دليل على أن التصديق مفقود۔ "البحر الرائق شرح كنز الدقائق" 2 / 284: وفي التجنيس المصحف إذا صار كهنا أي عتيقا وصار بحال لا يقرأ فيه وخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن ؛ لأن المسلم إذا مات يدفن فالمصحف إذا صار كذلك كان دفنه أفضل من وضعه موضعا يخاف أن تقع عليه النجاسة أو نحو ذلك۔ "رد المحتار"2 / 16:( قوله : كالمسلم ) فإنه مكرم ، وإذا مات وعدم نفعه يدفن وكذلك المصحف ، فليس في دفنه إهانة له ، بل ذلك إكرام خوفا من الامتهان ۔ "رد المحتار"27 / 90: الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن۔ "مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "4 / 431: ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر (2) "رد المحتار" 10 / 428: وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر ، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا : إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى۔ "حاشية رد المحتار " / 484: لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب