021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق مغلظہ کے بعد بھی اگر ازدواجی تعلق برقرار رکھا تو کیا حکم ہے؟
60298طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

میری شادی میری مرضی پوچھے بغیر زبردستی کی گئی، مجھے وہ بالکل بھی پسند نہیں تھا، رخصتی کے ایک ماہ بعد میں امید سے(یعنی حاملہ) ہو گئی،ہمارا جھگڑا ہوا تو میرے شوہر نے مجھے تین بارطلاق دی، گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ جب عورت حاملہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، ہم دوبارہ ساتھ رہنے لگے، میں اپنے شوہر کو قریب نہیں آنے دیتی تھی، گھر والوں نے برا بھلا کہا ، پھر ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی، ہمارا جھگڑا ہوا اور شوہر نے مار پیٹ کر گھر بھیج دیا، ابو سے معافی مانگنے پر ابو نے اسے معاف کر دیا اور وہ مجھے واپس اپنے گھر لے آیا۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اور دوسری شادی کرنا چاہتی ہوں، آپ بتائیں کہ کیا میرا نکاح ٹوٹا ہے یا نہیں؟ کیا عورت کے حاملہ ہونے سے طلاق نہیں ہوتی؟ اگر ہوتی ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا کروں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ عورت کواگر حالتِ حمل میں طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے،یہ بات شرعی لحاظ سے بالکل غلط ہے کہ حالتِ حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ امور واقع کے مطابق ہیں توجس وقت مسماۃ سندھو کے شوہر نے اسے تین دفعہ طلاق دی تھی تو تینوں طلاقیں واقع ہو گئی تھیں اور وہ اپنے شوہر پر حرام ہو چکی تھی ، اس کے بعد اب ان دونوں کا میاں بیوی کے طور پر آپس میں رہنا اور ملنا جلنا ناجائز اور سخت گناہ تھا۔تاہم نادانی میں ایک ساتھ رہنے اور میاں بیوی والا تعلق قائم رکھنے کی حالت میں جو بچے پیدا ہوئے ہیں،ان کا نسب شرعاً ثابت ہے۔ لہذا ان بچوں کی پرورش اور نان نفقہ اسی شخص پر ہے،اب جبکہ شرعی حکم واضح ہو گیا ہے تو ان دونوں پر لازم ہے کہ فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں اور سابقہ گناہ پر توبہ و استغفارکریں۔ طلاق کے بعد جب بچہ کی پیدائش ہوئی تو مسماۃ سندھو کی عدت بھی گزر گئی ، چنانچہ وہ کسی اور شخص کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے، جبکہ پہلے شوہر کے ساتھ موجودہ حالت میں دوبارہ نکاح کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔
حوالہ جات
فی الفتاوى الهندية :1/ 540 "ولو طلقها ثلاثا ، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره فجاءت منه بولد ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت ، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس الناصري۔" وفی الهداية في شرح بداية المبتدي:2/ 257 "وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها". و فی الفتاوى الهندية :1/ 528 "وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان. وسواء كانت المرأة حرة أو مملوكة قنة أو مدبرة أو مكاتبة أو أم ولد أو مستسعاة مسلمة أو كتابية كذا في البدائع وسواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة كذا في النهر الفائق. وسواء كان الحمل ثابت النسب أم لا ويتصور ذلك فيمن تزوج حاملا بالزنا كذا في السراج الوهاج۔"فقط
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمران مجید صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب