021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر عامل شریک کو کتنا نفع دیا جائے گا؟
60476شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

ایک غیر عامل شریک جس کا سرمایہ 14 فیصد ہے، وہ اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسے بھی دیگر شرکاء کے برابر نفع دیا جائے، کیا اس طرح کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت شرکتِ عنان کی ہے، اور شرکتِ عنان میں نفع تقسیم کرنے میں شرکاء کو اختیار ہوتا ہے چاہیں تو نفع سرمایہ کے تناسب سے طے کریں ،اور اگر چاہیں تو کم و بیش بھی طے کرسکتے ہیں، بشرطیکہ جس شریک کے عمل نہ کرنے کی شرط لگائی گئی ہو اس کا نفع اس کے سرمایہ کے تناسب سے زائد مقرر نہ کیا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں جس غیر عامل شریک کا سرمایہ 14 فیصد ہے نفع میں اس کا حصہ زیادہ سے زیادہ 14 فیصد ہی طے کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ اس کا نفع میں دیگر شرکاء کے برابر حصے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
رد المحتار (4/312): ( قوله : ومع التفاضل في المال دون الربح ) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح ، وقوله وعكسه : أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح ، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا ، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال . قلت :والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما. وفي النهر : اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر، والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط ؛ وإن شرطاه على أحدهما ، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز ، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته ، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة ، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية ا هـ ما في النهر . ………………………إلخ

عبداللہ ولی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

04/12/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے