021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مروج قرآن خوانی کاحکم
60547سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

میرے والد صاحب ایک عامی آدمی ہے چھوٹی سی ان کی دکان ہے ، وہ مختلف اوقات میں قرآن خوانی کرواتے ہیں خصوصا رمضان میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ محلہ کے امام صاحب کو قرآن خوانی کا بتادیتے ہیں تو وہ حفظ ناظرہ کے چند بچوں کو لیکر آتے ہیں ، ان کو سپارے تقسیم کردیئے جاتے ہیں ، اس دوران بعض بچے سپارے ہاتھ میں لیکر ویسے ہی بیٹھے رہتے ہیں اور بعض تلاوت کرتے ہیں ،پھر قاری صاحب اجتماعی دعاکرواتے ہیں ، پھر ان کو پیسے دیدیئے جاتے ہیں ۔ اگلے روز دعوت ہوتی ہے اس میں اس قاری صاحب بچوں کو لیکر آتے ہیں ،اور ہمارے دیگر رشتہ بھی دوعوت میں شریک ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے اس طرح مروج قرآن خوانی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟جائز ہے یا ناجائز یا بدعت میں شمار ہے ۔ کیونکہ ہمارے والد شریعت دیگر احکام کے اتنےپابندنہیں جس درجہ خوانی کروانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اللہ تعالی کی رضاء وخوشنودی کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا باعث اجر وثواب ہے احادیث میں اس کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے، جس طرح قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا لازم ہے ایساہی قرآن کریم کا ایک حق یہ ہے کہ روزانہ پابندی سے تلاوت کی جائے ،اپنی اولاد کو قرآن سكھایا جائے ۔ لیکن موجودہ دور میں اجرت پر قرآن خوانی کروانے کا جو رواج چل پڑاہے اس میں بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں ،١۔ایسا شخص خود تلاوت سے غافل رہتا ہے ،۲۔نماز روزہ دیگر فرائض میں کوتا ہی کی جاتی ہے ، ۳۔قرآن خوانی کروانے کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے دیگر اعمال کی طرف توجہ کم ہوجاتی ہے۴۔قرآن خوانی پر اجرت دیجاتی ہے اس میں مزید دوخرابیاں اور پیدا ہوجاتی ہیں ایک قرآن پڑھنے پر اجرت لینا دینا جوکہ بڑا گناہ ہے ،دوسری خرابی یہ ہے کہ عموما اجرت پہلے سے طے نہیں کی جاتی ہے بلکہ بعد میں اپنی مرضی سےدیدیجاتی ہے جس سےقرٓن خوانی کرنے والےدل ہی دل میں ناراض ہوتے ہیں یہ دوسرا گناہ ہے ۔ ۵۔ اس موقع پر گھر کی خواتین بے پردہ مردوں کے سامنے آجاتی ہیں کھانے پینے کی اشیا پیش کرتی ہیں یہ بھی بڑا گناہ ہے ٦۔ بعض لوگوں نے قرآن خوانی کے نام پر ایک مستقل دھندا بنا رکھا ہے ان کی ایک مستقل ٹیم ہوتی ہے مختلف ائمہ مساجد سے ان کا رابطہ ہوتا ہے اس کو قرآن خوانی پکڑنے کا عمل کہا جاتا ہے ،امام صاحب کے پا س کوئی خوانی کروانے آئے تو وہ اس ٹیم سے رابطہ کرتے ہیں ، پھرامام خوانی کرنے والی جماعت سے اپنے لئے بھی حصہ لیتے ہیں ۔ ۷۔خوانی کرنےوالی جماعت کے افراد عموما مکمل قرآن نہیں پڑھتے کچھ ورق گردانی کرکے کہدیا جاتا ہے کہ ہم نےقران ختم کرلیا ہے اس کے بعد کھانا کھاکر رقم لیکر نکل آتے ہیں ، اس میں جھوٹ دھوکے کے گناہ کے علاوہ قرآن کریم کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے ، ۸۔ ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کروانے میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے اس عمل کےلئے دن تاریخ متعین کرتے ہیں کہ تیسرے ،دسویں ،تیسویں اور چالیسویں دن ہی خوانی کروانا ہے اس سے قبل یابعد نہیں جبکہ شرعا ایصال ثواب کے لئے دن تاریخ متعین كرنےکو لازم سمجھنا بدعت ہے ، ۹۔ اس طرح کی قرآن خوانی میں رضاء الہی شامل نہیں ہوتی بلکہ عموما ریاکاری ہوتی ہے اس ڈر سے کرواتے ہیں کہ اگر ہم نے میت کے لئے خوانی نہیں کروایا تو لوگ طعنے دیں گے کہ یہ کیسےکنجوس لوگ ہیں میت کے لئے خوانی نہیں کروائی ۔ ١۰۔ بہت سے لوگ اس کے لئے قرض بھی لیتے ہیں جبکہ بلاضرورت قرض لینا بھی گناہ ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مروج قرآنی مذکورہ بالا خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بدعت اور ناجائز ہے قابل ترک ہے ۔ ایصال ثواب کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ نوافل ،تلاوت قرآن اورنقد صدقات خیرات کرکے مرحومین کے لئے ایصال ثواب اور بخشش کی دعاء کی جائے ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 240) ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 73) وأن القراءة لشيء من الدنيا لا تجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لا يجوز، فكذا ما أشبهه كما صرح بذلك في عدة كتب من مشاهير كتب المذهب؛ وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن، ولا ضرورة في جواز الاستئجار على التلاوة كما أوضحت ذلك في شفاء العليل وسيأتي بعض ذلك في باب الإجارة الفاسدة إن شاء الله تعالى. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55) قوله ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله - عليه الصلاة والسلام - «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» وفي آخر ما عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى عمرو بن العاص «وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا» ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 57) ونقل العلامة الخلوتي في حاشية المنتهى الحنبلي عن شيخ الإسلام تقي الدين ما نصه: ولا يصح الاستئجار على القراءة وإهدائها إلى الميت؛ لأنه لم ينقل عن أحد من الأئمة الإذن في ذلك. وقد قال العلماء: إن القارئ إذا قرأ لأجل المال فلا ثواب له فأي شيء يهديه إلى الميت، وإنما يصل إلى الميت العمل الصالح، والاستئجار على مجرد التلاوة لم يقل به أحد من الأئمة، وإنما تنازعوا في الاستئجار على التعليم اهـ بحروفه، وممن صرح بذلك أيضا الإمام البركوي قدس سره في آخر الطريقة المحمدية فقال: الفصل الثالث في أمور مبتدعة باطلة أكب الناس عليها على ظن أنها قرب مقصودة إلى أن قال: ومنها الوصية من الميت باتخاذ الطعام والضيافة يوم موته أو بعده وبإعطاء دراهم لمن يتلو القرآن لروحه أو يسبح أو يهلل له وكلها بدع منكرات باطلة، والمأخوذ منها حرام للآخذ، وهو عاص بالتلاوة والذكر لأجل الدنيا اهـ ملخصا.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب