021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میرج اورطلاقِ ثلاثہ کے بعد سابقہ شوہرکے ساتھ رہنے کا حکم
60610نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ نے ایک خاتون سے فون پر بات چیت شروع کی پھر بندہ نے اس لڑکی سے کورٹ میرج کیا اوربندہ کے بڑے بھائی نے اس لڑکی کے بڑی بہن سے کورٹ میرج کیا ،یہ دونوں لڑکیاں اپنے گھر سے فرارہوکرآئیں ہیں ،اگرواپس گھرجائیں تو ماں باپ یا بھائی وغیرہ ان کو قتل کردیں گے، بڑے بھائی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدی ہے ،اب باوجود تین طلاق دینے کےوہ بڑے بھائی کے پاس رہ رہی ہے ،اب نہ تو وہ گھر جاسکتی ہے اورنہ شوہرکے گھر رہ سکتی ہے اورعمر35سال ہونے کے باعث کوئی دوسرا بھی شادی کرنے کو تیارنہیں، اب شریعت ایسی صورتِ حال کےبارےمیں کیا فرماتی ہے ؟جبکہ وہ عورت خود کشی کے لیےبھی تیارہے یاپھر زنا کے اڈہ پرجانے کے لیے برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرمائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے یہ جاننا چاہیئےکہ اللہ عز وجلّ نے والدین اور اولاد کے درمیان جو رشتہ محبت کا قائم کیا ہے اس کی نظیر دنیا میں نہیں، اسی کی وجہ سے والدین اولاد کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ جس طرح والدین کے دل میں اللہ تعالی نے اولادکی محبت ڈالی ہے، ایسے ہی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم بھی دیا ہے، کہ اولاد والدین کی ہر جائزبات میں اطاعت کریں اور ان کے مشورہ سے اپنے اُمور کو سرانجام دیں، نہ یہ کہ اولاد ایسے اسباب پیدا کریں جن سے والدین کی عزت و آبرو پہ حرف آئے، برادری اور خاندان میں رسوائی کا سبب ہو۔منجملہ اِن اُمور کے ایک اَمر نکاح ہے کہ جس طرح یہ اولاد کے لئے خوشی اور فرحت کا سبب ہے اس سے زیادہ یہ والدین کے لئے بھی فرحت اور خوشی کا سبب ہے۔ اس میں والدین کی جائز خواہشات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے اولاد کے نکاح کی ذمہ داری اور ولایت والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اگر والد موجود ہے تو وہ اولاد کا بہتر سے بہتر جگہ نکاح کرے، لیکن اگر اولاد خواہشات اور شہوات نفسانیہ میں ڈوب کر یا کسی اور وجہ سے ایسی صورت اپنالے ،جو والدین کے لئے عار اور رُسوائی کا سبب ہو اوراولاد انہیں اعتماد میں لئے بغیر کورٹ میرج کے ذریعے سے نکاح کرلیں تو اس طرح کیا ہوا نکاح کاحکم یہ ہے کہ اگر لڑکی عاقلہ بالغہ ہو اور وہ اپنا نکاح غیر کفؤ میں کرلے (یعنی لڑکا حسب ونسب ، مال ، دینداری وغیرہ میں لڑکی سے کم درجہ کا ہواوراس کا ہم پلہ نہ ہو) تو اس صورت میں لڑکی کا کیا ہوا نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوتااوراگر لڑکی نے اپنا نکاح ایسی جگہ کیاجو اس کاکفؤ ہو (یعنی لڑکا حسب ونسب، مال ، دینداری وغیرہ میں لڑکی کے ہم پلہ ہو یا اس سے بڑھ کر ہو) تو اس صورت میں(اگر دیگر شرائطِ نکاح موجود ہوں تو) لڑکی کا کیا ہوا یہ نکاح بہرحال درست توہوجاتاہے ،مگر اس طرح والدین کو نظرانداز کرکے کورٹ میرج کرناانتہائی قبیح عمل ہے، ایک حدیث میں تواس طرح کےنکاح کو باطل تک کہاگیاہے ،ایک اجنبی عورت سےفون پر بات کرنا پھر والدین کی مرضی کے بغیر لڑکیوں کا گھر سے بھاگ کر جانااورشادیاں کرناغیرانسانی عمل ہے اس سے طرفین سخت گناہگار ہوئے لڑکوں اورلڑکیوں پر واجب ہے کہ اللہ کے حضور توبہ واستغفارکریں اور ہر ممکن یہ کرشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں ، اب والدین کو بھی چاہیئے کہ جوکچھ ہونا تھاوہ تو ویسے بھی ہوچکااب اپنی اولاد کی خاطراس نکاح پر راضی ہوجائیں تاکہ اولاد مزید کسی اورفتنہ میں مبتلاء نہ ہوں۔ جہاں تک سائل کے بڑے بھائی کااپنی بیوی کو تین طلاق دینے کا تعلق ہے تووہ تینوں طلاق واقع ہوکرمیاں بیوی کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے اب میاں بیو ی اکھٹے نہیں رہ سکتے اب یا تو ان کے والدین کواعتماد میں لیکر کہیں اوراس کی شادی کی کوشش کی جائےاگروالدین نہ مانےیا ان کی طرف سے لڑکی کے قتل کئے جانے کاخطرہ ہو یا لڑکی کی کہیں اورشادی نہ ہوسکےتو پھر مجبورا حلالہ شرعیہ کراکر آپ کا بھائی خود اس سے نکاح کرے تاکہ اس بے چاری کی زندگی حرام کاری،خود کشی اورقتل سے بچ سکے ،تاہم بغیر حلالہ شرعیہ اوراس کے بعد نکاح جدیدکےان دونوں کاایک گھر میں رہناجائزنہیں ہے ،اس میں سخت گناہ ہے،جس سےاپنے آپ کو بچانا لازم ہے ،اپنی بہن کے گھرشرعی پردہ کے ساتھ رہ کر صبر کرے ان شاء اللہ ،اللہ تعالی کوئی راستہ نکالے گا۔ حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی سے طلاق پانے کے بعد مذکورہ عورت عدت (تین ماہواری)گزارنے کے بعدکسی اورمردسے شادی کرے اورہمبستری کےبعد وہ اپنی مرضی سے کسی سابقہ شرط اوردباؤ کے بغیر اسےطلاق دیدے یافوت ہوجائے اورپھرعورت عدتِ طلاق یا وفات گزارکر پہلے شوہر یعنی آپ کے بھائی سے نکاح کرلے۔
حوالہ جات
وفی الشامیۃ(۵۶/۳) (قولہ ولایۃ ندب) أی یستحب للمرأۃ تفویض أمرھا إلی ولیھا کی لا تنسب إلی الوقاحۃ. وفی الدرالمختار (۵۷/۳): ( ويفتى ) في غير الكفء(بعدم جوازه أصلا ) وهو المختار للفتوى (لفساد الزمان ) فلا تحل مطلقة ثلاثا نكحت غير كفء بلا رضا ولي بعد معرفته إياه فليحفظ. ثم المرأۃ اذا زوجت نفسھا من غیر کفء صح النکاح فی ظاھر الروایۃ ۔۔۔ ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط. وفی المشکوۃ (ص۲۷۰) وعن ابن عباس رضی الله عنھما أن النبی ﷺ قال :الأیم أحق بنفسھا من وَّلیھا والبکر تستأذن فی نفسھا واذنھا صماتھا. الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196) وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال. أحكام القرآن للجصاص ج: 5 ص: 415 قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك". رد المحتار - (ج 12 / ص 388) ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخرى لأنه زنا.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب