021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جانوروں کا ریوڑ خریدنے کا حکم
60606خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اگر کسی بندے کے پاس بکریوں یا کسی اور جانوروں کا ریوڑ ہے اور وہ تعداد میں بھی بہت زیادہ ہے، اگر کوئی خریدنے والا بغیر جانوروں کو شمار کیے پورا ریوڑ خریدے، وہ کہے کہ دو سو یا تین سو بکریوں کی تعداد کے حساب سے مجھے فروخت کر دو، اس ریوڑ میں بکریاں کم ہوں یا زیادہ، وہ میرے کھاتے میں ہوں گی۔ اب ریوڑ میں جانوروں کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی۔کیا یہ بیع شرعاً جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال ميں ذکرکردہ خریدوفروخت کا حکم یہ ہے کہ اگر جانوروں کی تعداد معاملہ کرتے وقت بیان کی گئی تعداد کے مطابق ہو تو خریدوفروخت صحیح ہے، لیکن اگرجانوروں کی تعداد اس سے کم وبیش ہو تو اس صورت میں خریدوفروخت جائز نہیں، کیونکہ اس میں جانوروں کی مجموعی تعداد معلوم نہیں، جبکہ مبیع یعنی خریدی گئی چیز اگر عددی بنیاد پر خریدی جائے تو اس کی تعداد کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ خریدار ریوڑ کو باقاعدہ دیکھ لے اور پھرخریدتے وقت جانوروں کی تعداد کا ذکر نہ کرے، بلکہ صرف ریوڑ کی قیمت ذکر کر دی جائے تو یہ جائز ہے، اس صورت میں مجموعی ریوڑ کو ہی مبیع کہا جائے گا، جس کے لیے جانوروں کی تعداد کا علم ہونا ضروری نہیں۔
حوالہ جات
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 177) دار الكتب العلمية، بيروت: إذا بيع قطيع غنم على أنه خمسون رأسا بألف وخمسمائة قرش فإذا ظهر عند التسليم خمسة وأربعين رأسا أو خمسة وخمسين فالبيع فاسد إذا بيع مجموع من العدديات المتفاوتة بدون تفصيل أثمان آحاده وأفراده بل ذكر ثمن المجموع فقط فإذا ظهر المجموع موافقا للمقدار الذي بين حين عقد البيع فالبيع صحيح ولازم في المجموع المذكور كله ; لأن المبيع والثمن معلومان وإذا ظهر ذلك المجموع أنقص من المقدار المبين أو أزيد منه ففي هاتين الصورتين يكون البيع فاسدا في مجموع المبيع ; لأنه إذا ظهر ناقصا فلا تنقسم أجزاء الثمن على أجزاء المثمن في الأموال القيمية۔ وتكون بذلك حصة المقدار الناقص من الثمن المسمى مجهولة وعلى ذلك يكون البيع فاسدا بمقتضى المادة ( 238 ) وهذا الفساد ناشئ لجهالة الثمن كذلك إذا ظهر زيادة في المبيع فعلى مقتضى حكم المادة ( 222 ) لا تدخل تلك الزيادة في البيع ويجب ردها للبائع ولكن بما أنها مجهولة فقد يكون ردها سببا للنزاع فعلى ذلك كان البيع فاسدا وفساده لجهالة المبيع . المجلة (ص: 46): إذا بيع قطيع غنم على أنه خمسون رأسا بألف وخمسمائة قرش فإذا ظهر عند التسليم خمسة وأربعين رأسا أو خمسة وخمسين فالبيع فاسد۔ شرح فتح القدير (6/ 259) دار الفكر،بيروت: والأعواض المشار اليها سواء كانت مبيعات كالحبوب والثياب أو اثمانا كالدراهم والدنانير لا يحتاج الى معرفة مقدارها في جواز البيع فإذا قال بعتك هذه الصبرة من الحنطة أو هذه الكورجة من الأرز والشاشات وهي مجهولة العدد بهذه الدراهم التي في يدك وهي مرئية له فقبل جاز۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب