آج کل ٹرانسپورٹ کے اڈوں میں ایک روایت قائم ہے کہ اڈا ایک سال تک کرایہ پر دیا جاتا ہے، مگر کرایہ دار کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا اس کو مطلوبہ رقم حاصل ہو گی یا نہیں؟ کیونکہ گاڑیاں کم و بیش تعداد میں آتی ہیں، جیسا کہ درخت پر پھلوں کی خریدوفروخت پھل ظاہر ہونے سے پہلے جائز نہیں، تو کیا اس طرح اڈے کو کرایہ پر دینا جائز ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وضاحت: سائل نے بتايا کہ یہ سرکاری اور ذاتی دونوں قسم کی زمین میں اڈے بنے ہوتے ہیں، سرکاری ہو توحکومتی افسران اس کا کرایہ وغیرہ وصول کرتے ہیں، اگر ذاتی ہو تو مالک خود وصول کرتا ہے۔
o
اڈے کو کرایہ پر دینا جائز ہے، بشرطیکہ کرایہ کی مقدار اور جتنی مدت تک کے لیے اڈاکرایہ پر دیا گیا ہو، وہ معلوم ہو۔باقی کرایہ داری کے عقد کے درست ہونے کے لیے کرایہ دار کو یہ علم ہونا ضروری نہیں کہ اس کو اس کی منشاء کے مطابق مطلوبہ رقم حاصل ہو گی یا نہیں۔ کیونکہ کرایہ داری میں دراصل منفعت کی خریدوفروخت کا معاملہ ہوتا ہے اور منفعت کا حاصل کرنا کرایہ دار کی مرضی پرموقوف ہوتا ہے کہ وہ جتنا چاہے اس چیز سے نفع اٹھائے۔
باقی اس کو پھلوں کی خریدوفروخت کے مسئلہ پر قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ دونوں شرعاً علیحدہ علیحدہ عقود " معاملے " ہیں، اگر کسی عین چیز کی خریدوفروخت ہو تو اس کو اصطلاح میں "بیع" کہا جاتا ہے اور بیع کے لیے چیز کا وجود میں آنا ضروری ہے، اور اگر منفعت كی خریدوفروخت ہو تو اس کو "اجارہ" کہتے ہیں۔ اور اجارہ میں منفعت کا وجود ضروری نہیں، کیونکہ منفعت کا حصول تدریجاً ہوتا ہے، اس لیے ضرورت کی بناء پر اس کواس صرف اس شرط پر جائز قرار دیا گیا ہے کہ جتنے وقت کے لیے کسی چیز اجارہ ہو وہ وقت معلوم ہو۔
حوالہ جات
الهداية شرح البداية (3/ 231) المكتبة الإسلامية:
الإجارة عقد على المنافع بعوض لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع والقياس يأبى جوازه لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه۔