021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاقوں کے بعداجنبی ہونے والےمرد کوگھر پر رکھنے حکم
60759 جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرانام انجمن آرا ہے میں مکان نمبرB-215 سیکٹر1 احسن آبامیں کی رہائشی ہوں،میرے تین بچے ہیں بڑی بیٹی ہے اورپھر دو بیٹے ہیں ،جس گھرمیں میں رہائش پذیرہوں وہ میرے نام سے ہے جومیں نے اپنی کمائی سے خود خریدا اوربنایا اس میں میں نے اپنے شوہرسے کوئی پیسہ یا مددنہیں لی، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اس گھرسے پہلے اپنے بھائی کے گھر رہتی تھی وہ ملک سے باہر رہتے تھے اورانہوں نے اپنا گھر میرے حوالے کیا ہوا تھا کیونکہ میرے شوہرکرائے کا گھر لینے بھی حیثیت نہیں رکھتے تھے وہ ایک غیر ذمہ دارآدمی ہیں، انہوں نے کبھی کسی بات کی ذمہ داری نہیں اٹھائی اوراگر میں نے کوئی جائزمطالبہ کیا تو انہوں نے مارپیٹ کا راستہ اپنایا، انہوں نے1989یا1990میں مجھے انہیں گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے دو بار طلاقیں لکھ کردی جس کاعلم ان کے باپ اوربھائی کو بھی ہے اورمیری بیٹی اوربڑا بیٹا جو اس وقت اسکول پڑھتے تھے انہوں نے بھی وہ پرچہ پڑھا ،میرا دوسرا بیٹا اس وقت چھوٹا تھا پھرشوہر نے مہینہ سے پہلے رجوع کرلیا، میں اس وقت اپنے بھائی کے گھر رہتی تھی ،اس کے بعد انہوں پھر لڑائی کے دراران دوبارمجھے طلاقی دی کہ " میں تم کو طلاق دیتاہوں " یہ انہوں نے دوبار کہا اسوقت بھی میں اپنے بھائی کے گھررہتی تھی اورمیرے تینوں بچوں نے یہ سب کچھ سنا ،اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ طلاق ہوگئی ہے، اب آپ یہاں سے جائیں پر وہ نہیں گئے اورضد پر اڑ گئے کہ طلاق نہیں ہوئی، میں ایک مجبورعورت تھی میرے بچے چھوٹے تھے ،اپنے بھائی کے گھر رہتی تھی، مجھے دین کی بھی اتنی سمجھ نہیں تھی، میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی، مگر میں نے اپنے طورپر اپنا بسترالگ کرلیا جوآج تک الگ ہے، اب مجھے معلوم ہوچکاہے کہ یہ غلط ہے اورمجھے ان باتوں کو لوگوں اوررشتہ داروں کے آگے رکھنا چاہئے، مجھے برائے مہربانی یہ بتایاجائے کہ مذکورہ صورت میں کیا یہ تین طلاقیں جو کہ گنتی میں چار ہیں واقع ہوگئی ہیں، اورکیا ان کا میرے گھر میں رہنا صحیح ہے کیا ؟ وہ اس بات کو نہیں مانتے اورنہ ہی گھر سے جاتے ہیں کیا وہ میرے ساتھ اس گھر میں رہ سکتے ہیں ؟کیا میں ان کو اپنے گھر سے علیحدہ ہوجانے کا کہہ سکتی ہوں ؟ برائے مہربانی مجھے جلد ازجلد جواب دیجئے تاکہ میں اپنے رب سے معافی مانگوں۔ کسی بھی قسم کی شہادت کے لیے آپ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوکرحرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے،لہذا اب میاں بیوی ایک دوسرےکے لئے اجنبی بن چکےہیں اب نہ رجوع ہوسکتاہے اورنہ نکاح، لہذا سائلہ کا مذکور اجنبی ہونے والے شخص کو عدت کے بعد اپنے گھر پر رکھناقطعاً جائز نہیں،اس میں بہت سارےمفاسدہیں، مثلاً:طلاق پڑنے کے بعداس شخص سےاس عورت کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے جو یقیناً ایک گھر میں رہ کرنہیں ہوسکتا، بلکہ قربت رکھنے والے ایسےشخص سے تو پردہ کرنے کی اوربھی زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ بےپردگی اوراختلاط کی وجہ سےفتنہ کا اندیشہ ایسے موقع پرزیادہ قوی ہوتاہے،دیکھئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیورسے پردہ کی سخت تاکید فرمائی ہےحتی کہ فرمایاکہ’’ الحمؤ الموت‘‘ کہ دیورتوموت ہے یعنی اس سے پردہ نہ کرنے سےاورزیادہ فتنے کا خطرہ ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ زیادہ قربت رکھتاہے اوراس سے اختلاط زیادہ ہوتاہے جس سے گناہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ بناء بریں سائلہ کاطلاق چھپانا اورسابقہ شوہر کواپنےگھر بسائےرکھنا ہرگز جائزنہیں تھا ،اگرچہ شوہر اس کے ساتھ اجنبی کی طرح رہے اوراس کے قریب نہ آئے تب بھی اس شوہر کو گھر پر رکھناجائزنہیں،کیونکہ جب رشتہ ہی ختم ہوگیا تو پھر اس کو گھرپر رکھنے کاکیامطلب؟ نیز جہاں مرد اورعورت خلوت میں رہتے ہوں وہاں تیسرا شیطان ہوتاہے، بالخصوص جبکہ لوگ اب بھی اس شخص کومذکورہ عورت کاشوہر سجھتے ہوں، اس صورت میں تو گناہ کے امکانات اوربھی بڑھ جاتےہیں، لہذا فورا ً اس شخص کو اپنے سے الگ کرنااوراس کوگھرچھوڑنے کا کہنا ضروری ہے ۔ طلاق چھپانے سے شرعاً ختم نہیں ہوتی ،بلکہ اس کی حرمت بدستورباقی رہتی ہے، لہذا اس حیلے سے ایک اجنبی شخص کو گھرپر رکھنا ہرگزجائز نہیں ۔ اس عمل (طلاق چھپانے،ایک اجنبی کواپنے گھربسائے رکھنے)سےمذکورہ عورت (بشرطیکہ اس کو معلوم تھا)،طلاق نہ ماننے والاشوہرگناہگارہوئے، ان دونوں پر اللہ کے حضور سچی توبہ واستغفار کرنا اورگھر الگ کرناواجب ہے ۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196) وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال. وفی أحكام القرآن للجصاص ج: 5 ص: 415 قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك". وفی رد المحتار - (ج 12 / ص 388) ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالما بحرمتها لا تجب عدة أخرى لأنه زنا ، وفي البزازية : طلقها ثلاثا ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض ، ويرجمان إذا علما بالحرمة. عن عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ عن رسوال للہ ﷺانہ قال :إياكم الدخول على النساء ، فقال رجل من الأنصار يا رسول الله ، أفرأيت الحمو؟ قال : الحموالموت ﴿صحيح البخاريالنکاح باب لا یخلون رجل بامرأۃ، 5232، مسلم :الأدب، 2083﴾
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب